صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سید ضمیر جعفری :اردو شاعری میں طنز و مزاح کا سالار

پروفیسر غلام شبیر رانا

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

اقتباس

     سید ضمیر جعفری کا  اصل نام ضمیر حسین شاہ تھا۔ وہ یکم جنوری 1916کوایک  معزز سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان علم و ادب کے حوالے سے پورے علاقے میں منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اپنی جنم بھومی موضع چک عبدالخالق سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے گورنمنٹ ہائی سکول جہلم میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ  اپنے انتہائی ذہین اور فطین شاگرد کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں انھوں نے تخلیق ادب کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ سکول کی بزم ادب کے فعال اور مستعد رکن تھے۔ ابتدائی عمر ہی سے ان کی شگفتہ مزاجی کی  دھوم تھی۔ حاضر جوابی  اور گل افشانی ء گفتار ان کے امتیازی اوصاف تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک)میں انٹر میڈیٹ کلاس میں داخل ہوئے۔ انٹرمیڈیٹ میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ  لاہور پہنچے اور اسلامیہ کالج، لاہور میں داخلہ لیا  اور 1938میں انھوں نے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ بی۔ اے تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ روزگار کی تلاش میں نکلے اور عملی زندگی کا آغاز  دفتر میں ایک عام کلرک کی حیثیت سے کیا۔ جلد ہی وہ شعبہ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے روزنامہ ـ’’ احسان‘‘ لاہور، اور ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو کر اہم خدمات انجام دیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ  ہفت روزہ ’’ سدا بہار‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ آزادیِ اظہار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے اور اسے اپنی نوعیت کے لحاظ سے انسانی آزادی کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ حریت ضمیر سے زندہ رہنا ہے تو اسوہ شبیر پر عمل پیرا ہونا بے حد ضروری ہے۔ صحافت سے انھوں نے جو عہد وفا استوار کیا تمام عمر اسے نبھایا اور مختلف اوقات میں متعدد اخبارات اور جرائد میں کالم لکھتے رہے۔ اخبارات میں انھوں نے جو کالم تحریر کیے ان میں وہ نہایت خلوص اور دردمندی  سے زندگی کی مقتضیات کو زیر بحث لاتے رہے۔

        جب برصغیر نو آبادیاتی نظام کے چنگل میں پھنس چکا تھا اور برطانیہ کے زیر تسلط تھا اس عرصے میں دوسری عالمی جنگ اس خطے کے باشندوں کے لیے دوہرے عذاب کا باعث بن گئی۔ مقامی باشندوں کو برطانوی فوج میں بھرتی کر کے برطانیہ نے اپنی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اسی عرصے میں وہ برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور ان کی تعیناتی جنوب مشرقی کمان میں بہ حیثیت کپتان ہوئی۔ وہ شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے اور اس کمان کا ہیڈ کوارٹر سنگاپور میں تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں  فوجی خدمات کے سلسلے میں دنیا کے متعدد ممالک کی سیاحت کا بھی موقع ملا۔ عالمی ادب، تہذیب و ثقافت، سماجی اور عمرانی مسائل کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا۔ جب 1947میں برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہوا تو انھوں نے پاکستان بری فوج میں خدمات انجام دیں۔ ذاتی وجوہات کی بنا پر وہ 1949میں فوج سے الگ ہو گئے اور پھر سے صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ اسی سال راول پنڈی سے اپنا روزنامہ اخبار ’’باد شمال، ، جاری کیا جو ایک کامیاب اخبار تھا مگر بعض ناگزیر حالات کے باعث وہ اس اخبار کی اشاعت کو جاری نہ رکھ سکے۔ 1951میں انھوں نے خار زار سیاست میں قدم رکھا اور جہلم کے ایک دیہاتی حلقہ انتخاب سے پنجاب اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب میں حصہ لیا لیکن لوٹے اور لٹیرے کب کسی قابل اور با صلاحیت انسان کو آگے آنے دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ ایک محب وطن اور بہادر سپاہی تھے انھوں نے 1952میں دوبارہ فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا اس کے بعد وہ ترقی کر کے میجر کے عہدے تک پہنچے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وطن، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا ایک عالم معترف تھا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول