صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شاخِ گلاب
احمد فراز
’’درد آشوب‘‘ سے غزلوں کا انتخاب
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر دوست پرانے میرے
تُو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
شمع کی لَو تھی کہ وہ تُو تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے
خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے
لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گرِ دل یہ بھی خزانے میرے
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
----ق----
کاش تُو بھی مری آواز کہیں سُنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے
کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دُکھانے میرے
کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا
بات سُن لی ہے مری، آج خدا نے میرے
تُو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے
مجھ کو تو چھین لیا عہدِ وفا نے میرے
چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جانِ فرازؔؔ
جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے
٭٭٭
نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
کسے بزمِ شوق میں لائیں ہم دلِ بے قرار کوئی تو ہو
کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شبِ طرب
مگر اے نگارِ وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو
کہیں تارِ دامنِ گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئی تو ہو
یہ اداس اداس سے بام و در، یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سرِ کوئے یار کوئی تو ہو
یہ سکونِ جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغِ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غمِ عشق یا غمِ روزگار کوئی تو ہو
سرِ مقتلِ شب آرزو، رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تَو فرازؔؔ تُو کہ نصیب دار کوئی تو ہو
٭٭٭