صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شاخ گل
آغا سروش
ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نعت/سلام
یا محمد ایسی عزت آپ نے پائی کہ بس
کی شب معراج رب نے وہ پذیرائی کہ بس
ایک پل میں مصطفی کو عرش پر بلوا لیا
اپنے بندے کی خدا کو ایسی یاد آئی کہ بس
گنتے گنتے تھک گئیں تاروں کی ناز انگلیاں
مصطفی کے ہیں زمیں پر اتنے شیدائی کہ بس
میں نے تپتی دھوپ میں جب چھیڑ دی نعتِ رسول
رحمتوں کی ہر طرف ایسی گھٹا چھائی کہ بس
دیکھ اب بھی وقت ہے دامانِ احمد تھام لے
ورنہ کل محشر میں ہوگی ایسی رسوائی کہ بس
ایک دن میں لکھنے بیٹھا تھا شب ہجرت کا حال
کیا کہوں یارو مجھے بھی ایسی نیند آئی کہ بس
ان فرشتوں نے ابھی پوچھا ہی کیا تھا اے سروش
دفعتاً میرے سرہانے سے صدا آئی کہ بس
٭٭٭
فوج عدو کی آب رسانی کے بوجھ سے
دم گھٹ گیا فرات کا پانی کے بوجھ سے
للہ اے خطیب سلونی ہمیں بچا
لوگوں کے دعوی ہمہ دانی کے بوجھ سے
شریانیں پھٹ نہ جائیں کسی دن دماغ کی
تاریخ کی دروغ بیانی کے بوجھ سے
تھی جن کو لفظ مولا کے مفہوم کی تلاش
عقل انکی مضمحل ہے معنی کے بوجھ سے
دونوں جہاں کے سجدے مثال حباب ہیں
خندق میں ذوالفقار کے پانی کے بوجھ سے
کیا حال ہو گیا پر جبریل کا نہ پوچھ
اک ضرب مرتضی کی گرانی کے بوجھ سے
لگنے لگا ہے تلخ ہمیں شہد زندگی
ان واعظوں کی تلخ بیانی کے بوجھ سے
اے موت بس کہ تلخ ہوئی جاتی ہے حیات
ہر لمحہ تیری یاد دہانی کے بوجھ سے
ویران ہے مدینہ تو مکہ اداس ہے
سرور تمھاری نقل مکانی کے بوجھ سے
یارب براق بھیج دے رہوار دب نہ جائے
ہم شکل مصطفی کی جوانی کے بوجھ سے
دھسنے کو ہے زمین میں اب لشکر یزید
بے شیر تیری تشنہ دہانی کے بوجھ سے
جب مشک چھد گئی تو علمدار گر پڑے
آنکھوں میں تیرتے ہوئے پانی کے بوجھ سے
کچھ دیر کا سکوت ہے یہ اے غم حسین
آنسو تھمے ہوئے ہیں روانی کے بوجھ سے
کوثر چھڑک کے ہوش میں لاؤ سروش کو
بے ہوش ہے غموں کی کہانی کے بوجھ سے
٭٭٭