صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


جمالیاتی آگہی کا مصنف۔۔۔ شکیل الرحمن    

پروفیسر سیدہ جعفر

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات

  ہر ادب کی جڑیں اس کے ماضی میں دور تک پیوست ہوتی ہیں اور وہ ان سے تقویت و توانائی حاصل کر کے اپنے وجود کو استحکام عطا کرتا، سنورتا اور نکھرتا رہتا ہے۔اردو ادب کے حقیقی خد و خال، اساس رجحانات، اس کے امتیازات اور اس کے مزاج سے آشنا ہونے کے لیے اس کے ماخذوں اور سر چشموں کی آگہی ضروری ہے۔ دکنی ادب کا مطالعہ ان بنیادوں کی علمی شناخت کی سعی ہے جن پر آج اردو شعر و ادب کی سر بفلک عمارت قائم ہے۔ محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر اور وہ تخلیق کار ہے جس کے فن پاروں نے ہند عالی تہذیب، ہندوستانی فکر، جمالیاتی تصورات، فنون لطیفہ اور اس سرزمین پر صدیوں سے جلا پانے والے گوناگوں مظاہر کے نقوش کو گویائی عطا کی ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے ضخیم دیوان کو ڈاکٹر ؟؟؟؟نے پہلی بار مرتب کر کے شائع کیا تھا۔ ان کی توجہ کا مرکز زیادہ تر تحقیقی حقائق کی بازیافت اور پیشکش تھا اس نے میں نے ’’قومی کونسل برائے ترقی اردو زبان‘‘ (دہلی) سے اسے شائع کروایا تو مقدمے میں تحقیقی مسائل کے علاوہ کلام قلی کے تنقیدی پہلو کو اپنا ماسکہ بنایا اور شاعر کے ہندوستانی افکار اور تہذیبی تصورات کی عکاسی اور شاعری کے تجزیے کی کوشش کی اس سلسلے میں محمد قلی کی شعری کاوشوں میں جو راگ راگنیوں، ہندوستانی دیومالا سے واقفیت، کلام کلا، نائیکہ بھید، رسنوں، مناظر فطرت کی مصوری کے ذیل میں رت ورنن کی ہندوستانی روایت سے اثر پذیری اور دوسری جہتیں موجود ہیں ان پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر شکیل الرحمن علم جمالیات کے ماہر ہیں اور جمالیاتی عناصر کی تلاش اور تجزیے کے سلسلے میں اردو تنقید میں ان کا نام سر فہرست دکھائی دیتا ہے، گہرائی، علمی بصیرت، تجزیاتی سلیقے اور جمالیات و ادب کے باہمی ربط پر ان کی نظر اردو تنقید کے سرمایے میں ایک منفرد وقار اور عالمانہ انداز نظر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ڈاکٹر شکیل الرحمن نے اردو تنقید کے اثاثے میں گرانقدر اضافہ کیا ہے اور اسے نئی وسعت اور پہنائی عطا کی ہے۔ شکیل الرحمن کی تنقیدیں یک سر کی اور بے کیف نہیں، انہیں اسلوب کی شگفتگی نے کشش اور جاذبیت بخش ہے۔ محمد قلی کی جمالیات سے پہلے شکیل الرحمن کی تصانیف ’’مولانا رومی کی جمالیات‘‘، ’’جمالیات حافظ شیرازی‘‘، ’’امیر خسرو کی جمالیات‘‘، ’’نظیر اکبر آبادی کی جمالیات‘‘ اور ’’تصوف کی جمالیات‘‘ جیسی تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں اور ان کتابوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے جمالیات کے سطحی مطالعے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس علم کی وسعتوں اور اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کی اور اس کی گہرائیوں میں ڈوب کر گوہر نایاب حاصل کیے ہیں۔ ان کے طریقہ انتقاد نے اردو تنقید کو نئی جہات اور نئے افق عطا کیے ہیں اور ان کا یہ کارنامہ کہ انھوں نے ادب میں جمالیات کی اثر آفرینی اور کار فرمائی کی طرز ہماری توجہ مبذول کی اور علم جمالیات سے ادب کے قریبی ربط کا احساس دلایا بڑی وقعت کا حامل ہے۔

ایک سو ایک صفحات پر مشتمل یہ کتاب محمد قلی قطب شاہ کے مطالعے کا نیا زاویہ اور نیا انداز پیش کرتی ہے۔ شکیل الرحمن نے محمد قلی کے جمالیاتی شعور کا بڑی دیدہ وری اور باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے اور ان کا یہ بیان کہ ’’اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر کی بوطیقا پر‘‘ یہ تصنیف ’’اردو تنقید کی پہلی کتاب ‘‘ ہے۔ حقیقت پر مبنی محاکمہ معلوم ہوتا ہے۔ کلام قلی کے مطالعے کی جو جہت شکیل الرحمن نے اجاگر کی ہے وہ اپنی معنویت کے لحاظ سے نہایت قابل توجہ ہے۔ محمد قلی کے کلام کا تجزیہ کرتے ہوئے نقاد اس نتیجے پر پہنچتا ہے :

’’سلطان محمد قلی قطب شاہ ابتدائی اردو تہذیب کے پہلے ارمانی شاعر ہیں رومانی تجربوں کا یہ شاعر پوری زندگی کو ایک جشن سمجھتا رہا، اس لیے اس کے جمالیاتی تجربوں میں ہر جگہ چراغاں کی سی کیفیت ہے۔ محبوب شعری کائنات کا مرکز ہے۔ تمام جمالیاتی ارتعاشات Aesthetic Vibration اسی مرکز کی شعاعوں کی دین ہیں ‘‘۔

اس کتاب میں شکیل الرحمن نے محمد قلی کے متعدد اشعار اپنے بیانات کی وضاحت کے لیے پیش کیے ہیں۔ بظاہر یہ مثالیں کثیر معلوم ہوتی ہیں لی کن ان سے فائدہ یہ ہوا کہ نقاد کے محاکمے کی تشریح میں بھی مدد ملی اور محمد قلی کے کلام سے واقفیت کا موقع بھی ملا۔

شکیل الرحمن نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ عورت اور اس کا جمال محمد قلی کی شاعری کی ’’جمالیات کا مرکز‘‘ ہے۔ شاعر کا ذہن رومانی اور اس کی جمالیاتی حس بہت بیدار اور متحرک ہے اس لیے محمد قلی کے کلام رنگ و نور نغمہ و آہنگ اور خوشبوؤں کی دنیا محسوس ہوتا ہے۔ مصنف نے محمد قلی کی جنسی حسیت پر روشنی ڈالی ہے اور لکھتے ہیں کہ بھرت نے جن اکتالیس ’’بھووں ‘‘ (BHAWAS) کا ذکر کیا ہے ان میں ’’ری بھووں ‘‘ کو بڑی اہمیت حامل ہے۔ شکیل الرحمن یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’شاعر کے کلام میں جو شرر نگاہ رس ہے وہ اسی جذبے کی دین ہے ‘‘۔

محمد قلی کے طرز اظہار اور اس کے پیش کردہ پیکروں پر تبصرہ کرتے ہوئے شکیل الرحمن نے لکھا ہے کہ محمد قلی نے تجربات کی ترسیل کے لیے نہایت برجستہ اور مناسب الفاظ کا انتخاب کیا ہے اور ان سے شاعر نے اپنی تصویروں کی رنگ آمیزی میں مدد لی ہے۔ مثال میں جو اشعار پیش کیے گئے ہیں ان میں قدیم الفاظ کے نیچے ان کے معنی بھی درج کر دئے ہیں۔

شکیل الرحمن لکھتے ہیں کہ محمد قلی کی بارہ جمالیاتی جہتیں ہیں۔ بارہ راگنیوں کے وسیلے سے ان کی شبیہ ابھاری گئی ہے اور ان کے جمالیاتی اوصاف کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں شکیل الرحمن لکھتے ہیں :

’’رتی بھون‘‘ (Rati Bavan) شرر نگاہ رس سے شاعر نے ایک خوبصورت پیکر کو سامنے رکھ کر ایک پرکشش جمالیاتی فینومین (Aesthetic phenomenon) تخلیق نیا ہے۔ اردو بوطیقا میں آئندہ بھی ایسے دلفریب، رومانی اور رس بھرے تجربے نہیں ملتے ‘‘ (صفحہ76)

مختصر یہ کہ محمد قلی قطب شاہ کے ملازم کی تفہیم و تحسین کے سلسلے میں اس کتاب کی بڑی اہمیت ہے اور یہ تصنیف ہمارے تنقیدی سرمایے میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ آخر میں اس کتاب کے سلسلے میں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتی ہوں۔ کتاب کے ٹائٹل پیچ پر جس تصویر کو جگہ دی گئی ہے وہ محمد قلی قطب شاہ کی فوٹو ہونا چاہئے تھی۔ یہ تصویر محمد قلی قطب شاہ کی نہیں بلکہ محمد قطب شاہ کی ہے جو شاعر کا بھتیجا اور داماد تھا۔ محمد قطب شاہ بھی شاعر تھا اور اس نے ظل اللہ تخلص اختیار کیا تھا۔ اس کا کلام مرور ایام کی گرد و غبار میں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے دیوان پر جو منظوم دیباچہ اس نے سپرد قلم کیا تھا اب وہ اس کے کلام کا واحد مستند نمونہ ہے۔ اس کا انتقال 1666ھ میں ہوا تھا۔ محمد قطب شاہ گولکنڈے کا چھٹا حکمراں اور محمد قلی قطب شاہ کا جانشین تھا۔ کتاب کے دوسرے ایڈمیشن میں اس طرف توجہ کرنا ضروری ہے۔ مجھے توقع ہے کہ ادبی حلقوں میں منفرد موضوع پر لکھی ہوئی اس کتاب کی قدر ہو گئی ہے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

 ورڈ فائل                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول