صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


شاعرِ مشرق

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقبال کی غزلیہ شاعری

اقبال جب اپنی غزلیہ شاعری میں حقیقت کو مجاز سے ملا دیتے ہیں، اور کبھی حقیقی بول کر مجاز مراد لیتے ہیں تو کبھی مجاز بول کر حقیقت مراد لیتے ہیں تو ایسی حسین غزل عالم وجود میں آتی کہ پھر اس کا جواب ممکن نہیں ہوتا۔


طور پر تو نے جو اے دیدۂ موسیٰ دیکھا

وہی کچھ قیس سے دیکھا پس محمل ہو کر

مری ہستی جو تھی میری نظر کا پردہ ہے

اٹھ گیا بزم سے میں پردہ محفل ہو کر

عین ہستی ہوا ہستی کا فنا ہو جانا

حق دکھایا مجھے اس نقطہ نے باطل ہو کر

خلق معقول ہے محسوس ہے خالق اے دل

دیکھ ناداں ذرا آپ سے غافل ہو کر


اقبال کی نظموں میں حب الوطنی کا جذبہ اپنے تمام احساسات و جذبات کے ساتھ موجزن ہے۔ ہمالہ، صدائے درد، تصویر درد، آفتاب، ترانہ ہندی، نیا شوالہ، اقبال کی وطن پرستی کی بہترین نظمیں ہیں۔


کب زباں کھولیں ہماری لذت گفتار نے

پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے


لیکن اقبال کی شاعری کی بد قسمتی اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب اقبال نے ہندی وطنیت کو خیر آباد کہہ کر اس کے بجائے اسلامی تعلیم کی تبلیغ شروع کر دی، یعنی مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد وطن نہیں بلکہ مذہب ہے،


نرالہ سارے جہاں سے اس کو عرب کو معمار نے بنایا

بنا ہمارا ہی سارے ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے


مایہ ناز اسلامی اسکالر حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے اقبال کی اس سلسلے میں ایک لمبی بحث چلی چونکہ مولانا حسین احمد مدنی تقسیم ہند کے مخالف تھے اس لئے ہر اس چیز کی مخالفت کرتے تھے جو تقسیم ہند کی راہ ہموار کرے۔ چونکہ علامہ اقبال نے تقسیم کی طرف مسلمانوں کو مائل کرنا شروع کر دیا تھا، اس لئے مولانا حسین احمد مدنی نے اقبال کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ تقسیم وطن کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے۔ آج دنیا نے دیکھ لیا کہ مولانا حسین احمد مدنی حق پر تھے، اقبال باطل پر تھے، اس وقت مولانا حسین احمد مدنی نے اقبال کویہ بات سمجھائی تھی، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک قومیت کی بنیاد مذہب پر نہیں ہے بلکہ وطنیت پر ہے۔ انہوں نے مثال پیش کی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کے دوران طائف کے لوگوں نے لہو لہان کر دیا تھا تو حضرت جبرئیل امین آئے تھے اور عرض کیا تھا کہ اگر حکم ہو تو دونوں پہاڑوں کو ملا دوں اور یہ قوم سدا کے لئے ختم ہو جائے، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ میری قوم لے لوگ ہیں مجھے پہچانتے نہیں، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ وطن کی بنیاد پرکہا ہے، ورنہ اس وقت تک اہل طائف نے اسلام قبول نہیں کیا تھا،  (یاد رہے کہ تاریخ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ فاتح سندھ محمد بن قاسم ثقفی طائف کے ہی رہنے والے تھے ) لیکن اقبال بضد رہے اور مسلم لیگ کے 1930 کے الہ آباد اجلاس میں جس کی اقبال نے صدارت کی تھی نظریہ پاکستان پیش کیا اور مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کی حمایت کر دی۔ اگر چہ ان کی زندگی میں پاکستان نہیں بن سکا اور ان کا انتقال غیر منقسم ہندوستان میں ہوا تھا، بعد میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ قومیت مذہب کی بنیاد پر نہیں ہو سکتی، اور پاکستان کا ایک حصہ بنگلہ دیش جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا مذہب کی بنیاد پر متحد نہیں رہ سکا۔


جب اقبال نے مذہب کی تبلیغ کو اپنا شعار بنا لیا تو ان کی شاعری فنی و جذباتی اعتبار سے کمزور پڑ گئی، یقیناً اقبال بڑے نہیں بہت بڑے شاعر ہوتے اگر پیغمبر بننے کی کوشش نہ کرتے تھے، عالمی شاعری میں ان کا بہت بلند مقام ہوتا، پھر بھی اقبال انیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر قرار پاتے ہیں۔


اقبال نعت رسول کے بڑے عظیم اور مفکر شاعر ہیں، ان کی نعت گوئی میں حسان بن ثابت کی والہانہ اندازِ شاعری کی جھلک نظر آتی ہے ایک طویل نعت کے دو شعر پیش ہیں، اس نعت کا انداز غزلیہ ہے۔


سراپہ حسن بن جاتا ہے جس پر حسن کا عاشق

بھلا اے دل ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں


پھڑک اٹھا تھا کوئی تیری آدائے ما عرفنا پر

ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ سب ناز آفرینوں میں


اقبال کو آنحضرت ﷺ سے والہانہ و جذباتی لگاؤ تھا، صحابہ کرام کی عظمت و رفعت سے بے حد متاثر تھے، بد حال مسلمانوں کی حالت زار سے پریشان ہو کر دربارِ خداوندی میں شکایت کر دی کہ ہم نے تیرے پیغام کو عام کرنے میں جو خدمت انجام دی ہے وہ بے لوث تھی، نہ حکومت نہ دولت نہ ثروت، یہ ہمارے چاہت کے مطمح نظر نہیں تھے۔


اقبال نے بچوں کے لئے بہت کچھ لکھا ہے انہوں نے بچوں کے لئے جو نظمیں رقم کی ہیں ان کا اندازِ بیان نہایت سادہ الفاظ آسان و عام فہم ہیں، اس کے باوجود لفظیات کے آسان ہونے کے باوجود کہیں بھی بات گرنے نہیں پاتی۔ اقبال اپنی صدی کے سب سے بڑی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم مفکر ہیں، انہوں نے مشرق و مغرب کے میخانوں سے جام نوش کیا تھا، تہذیب و مذاہب کا مطالعہ کیا تھا، اسلام کے عظیم اسکالر تھے، لیکن یہاں مورخ کا قلم تھرا جاتا ہے کہ ایسا دانش ور اور عظیم اسلام کی اسکالر نے ہندوستان کی دھرتی پر دو قومی نظرئیے کو کیسے پیش کر دیا جس کی بنیاد پر آگے چل کر 1947 وہ المیہ پیش آیا جس کی وجہ سے ہندوستان کا جو نقصان ہوا وہ یقیناً نا قابل تلافی ہے، لیکن مسلمانوں کا جو نقصان ہوا وہ تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول