صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
شاعرِصدرنگ
تسلیم الہٰی زلفیؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
عبداللّہ جاوید کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ
جب ہم برِّصغیر کی اہم اور سینئر ادبی شخصیات کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ان میں سے بیشتر کو نہایت کم آمیز، منکسر المزاج اور سادہ دل پائیں گے ۔ دوسری جانب جب ہم تخلیقی حوالوں سے ان پر بات کریں تو یہ حضرات نہایت فعال اور سرگرم نظر آتے ہیں ۔ گوشہ نشینی، عزلت گزینی اور کم آمیزی کے تناظر میں جب ہم کینیڈا میں مقیم، برِّصغیر کی سینئر ادبی شخصیت عبداللہ جاوید صاحب کو دیکھیں تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔ موصوف گزشتہ پندرہ، سولہ سال سے کینیڈا میں مقیم ہیں ۔ پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے معتبر ترین ادبی مجلوں ’’ فنون ‘‘ اور ’’سیپ ‘‘ میں ان کی شعری تخلیقات اور تنقیدی نگارشات تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے ادارتی صفحے پر گاہے بہ گاہے، روز نامہ ’’ جسارت ‘‘ کے ادبی صفحے پر اکثر ان کے کالم شائع ہوتے رہتے ہیں اور تو اور کینیڈا کے ایک ہفتہ وار اخبار ’’ ٹورانٹو ٹائمز ‘‘ میں کوئی ایک سال تک ’’ ذکرِ خیر ‘‘ کے عنوان سے ان کا سیاسی کالم آتا رہا۔ اسی دوران ان کے شعری مجموعے بھی آئے۔۔ لیکن کینیڈا اور شمالی امریکہ کے ادبی حلقوں میں کسی کو کانوں کان ان کی موجودگی کی خبر نہیں ملی۔
ابھی دو ہفتے قبل جب عبداللہ جاوید صاحب نے نہایت خلوص کے ساتھ اپنے تینوں شعری مجموعے ہمیں بذریعہ ڈاک بھجوائے تو ایک گونہ خوشی کے ساتھ ہم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔ لہذا ہم نے اُسی دم کتابوں کے ساتھ آئے ان کے محبت نامے پر درج فون نمبر پر ان سے رابطہ قائم کیا اور کتابیں بھیجنے پر اپنے اظہارِ ممنونیت کے ساتھ ساتھ، ان سے درخواست کی کہ آپ اپنی پہلی فرصت میں ہمارے ٹی وی اسٹیشن تشریف لا کر ہمارے ادبی پروگراموں کو رونق بخشیں۔۔ ہمیں خوشی ہے کہ عبداللہ جاوید صاحب نے ہماری اس دعوت کو قبول فرمایا اور چند روز بعد ہمارے ایک ادبی پروگرام ’’ ادبی مجلہ ‘‘ میں تشریف لے آئے۔۔ اُس موقع پر ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا۔۔ ’’ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی دنیا میں شعر و ادب پر اور بالخصوص اردو، ہندی زبانوں کے شعر و ادب پر بڑا کڑا وقت آیا ہُوا ہے اس صورتِ حال کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟‘‘۔ عبداللہ جاوید کہنے لگے۔۔ ’’شعر و ادب کو Non-Productive Labour غیر پیدا واری مشقّت قرار دینے اور اس سے دُور رہنے کا جو رویّہ اور کلچر ہمارے آس پاس ہے، اس سے خدشہ ہے کہ ہمارے بعد آنے والی نسلیں شعر و ادب سے کنارہ کشی اختیار کر لیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شعر و ادب کی تخلیق کو غیر پیدا واری Non-Productive مصروفیات میں رکھنا بہت بڑی زیادتی ہے، کیونکہ شاعری، افسانہ نگاری، مصوری، آرٹ، پینٹنگ، ا سکلپچر، موسیقی، رقص، ڈرامہ اور اس قسم کے تمام کام، انسانی ثقافت کے لئے بہت ضروری ہیں ۔ ان کا تعلق انسان کی چند بنیادی جبلّتوں Basic human cravings سے ہے ۔ ان کے بغیر انسان یا تو جانور بن جاتا ہے یا مشین ہو جاتا ہے ۔ ان ملکوں میں زیادہ خطرہ یہ ہے کہ انسان مشین ہو کر رہ جائے ‘‘۔
جاوید صاحب نے ادب کے تقریباً ہر شعبے میں دلچسپی لی اور کام کرنے کی کوشش کی۔ چھٹپن میں، گیت کہے، چکّی پیسنے کے دوران گائے جانے والے گیت، برکھا رُت کے گیت، جھولے کے گیت اور پھر بڑے ہونے کے ساتھ آز ادی کے گیت ، انقلاب کے گیت۔۔ گیتوں سے ہوتے ہوئے۔۔ پابند نظموں، قطعات، رباعیات، سانیٹس اور غزلوں تک پہنچے ۔ ساتھ ہی ساتھ کہانیاں بھی ہونے لگیں ۔ پہلی کہانی پریم چند کے رنگ میں تھی جو ساتویں درجے میں پڑھنے کے دوران لکھی۔ حیدر آباد دکن کے ایک مشہور قلمی رسالے ’’ کرن ‘‘ میں شائع بھی ہوئی۔ پریم چند کے رنگ میں پھر کچھ نہ لکھا۔ کہانیاں جلد جلد طبع ہوئیں ۔ ماہنامہ ’’ رباب ‘‘ حیدر آباد دکن، نظام ویکلی، بمبئی، ہمایوں (لاہور) ادبِ لطیف، لاہور ، ادبی دنیا، لاہور میں شائع ہوئیں ۔ زیادہ کہانیاں روزنامہ ’’ میزان ‘‘ حیدر آباد دکن میں چھپیں ۔ انگریزی زبان میں بھی کہانیاں لکھیں، شائع بھی ہوئیں ۔ شاعری بھی کی ۔ دو چار ایکانکی ڈرامے شائع ہوئے، یہ سب 1941 سے ہوا ، البتہ تنقید اور کالم نگاری کی جانب ساٹھ کی دھائی میں رخ کیا۔ اس ضمن میں ایک بات بڑی اہم ہے اور وہ یہ کہ جاوید صاحب نے جو کچھ کیا کسی کیفیت کی گرفت میں آ کر ہی کیا۔ خاص طور پر شاعری ، بعض اوقات جو کہا وہ جیسے ہوا کے حوالے کر دیا۔ کاغذ پر نہ لا سکے ۔۔اور بقول ان کے، اب بھی ایسا ہوتا ہے ۔ جانے کیوں ۔ جیسے کچھ بھی ان کے اپنے اختیار میں نہیں ہے ۔ نہ احساس، نہ خیال، نہ زبان، نہ انگلیاں، نہ قلم، نہ کاغذ اور نہ ہی الفاظ!!
جاویدؔ صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز اُس زمانے میں ہوا جب ہماری دنیا پر جنگِ عظیم دوم مسلط ہو رہی تھی۔ جرمن انشاء پرداز فلسفی نطشے کی فکر مجسّم ہو کر ہٹلر کا روپ دھار چکی تھی اور اپنی اور اپنی دنیا کی بربادی کے رقصِ آخر میں مصروف تھی اور جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگا ساکی پرل ہاربر کے خمیازے میں اٹامک بلاسٹ کے اولیّن تجربو ں کی زد میں آ رہے تھے ۔ 16 دسمبر 1931 جب عبداللہ جاوید نے جنم لیا ترقی پسند ادب کی عظیم اور عوام پسند تحریک جنم لے چکی تھی بلکہ پالنے سے اتر کر کہیں رینگنے، کہیں چلنے، تو کہیں دوڑنے بھی لگی تھی۔
ترقی پسند تحریک کے حامی اور مخالف دونوں ہی اس حقیقت کا اعتراف کرتے آئے ہیں کہ یہ ہمارے ادب کی سب سے بڑی اور موثر تحریک تھی ۔ جس طرح برّ صغیر کی دوسری زبانوں خاص طور پر بنگالی میں اس تحریک کی نشو و نما اور ا سکے اثرات ہمہ گیر رہے ہیں اسی طرح اردو میں بھی اس کی جڑیں گہری، ا سکی فکری جولانیاں وسیع اور تخلیقی افق عریض اور روشن رہا ہے ۔ بے شک ہر بڑی تحریک کی طرح کچھ کوتاہیاں اور ادعائی کم اندیشیاں بھی اس کی ہم سفر رہی ہیں جن کا اعتراف اس سے وابستہ اکثر شاعروں اور ادیبوں نے کیا ہے ۔ ۔ اس ضمن میں جب ہم نے عبداللہ جاوید صاحب کے خیالات جاننا چاہے تو انہوں نے فرمایا۔۔ ’’ ترقی پسند ادب کی تحریک تو جیسے پہاڑی ندی تھی، نو جوان ادیبوں اور شاعروں کی تو بات ہی کیا، پختہ عمر والے قلم کاروں کو بھی اپنی موجوں میں لپیٹ لیا۔ مختصراً ایک واقعہ بیان کروں گا۔ ایک مختصر سی ادبی نشست ( بمبئی یا شاید حیدر آباد دکن) مولانا حسرتؔ موہانی کے اعزاز میں رکھّی گئی تھی۔ ماہر القادری نے اس کے آغاز میں ایک چھوٹی سی لیکن ترقی پسندوں کے خلاف بے حد تیکھی تقریر کی۔ وہ اُس زمانے میں ترقی پسند ادب کے خلاف بے حد سرگرم تھے ۔ جب ماہر القادری نے مخدوم محی الدین کو دعوتِ کلام دی تو کلام پیش کرنے سے قبل مخدومؔ نے صرف اتنا کہا کہ حضرات وہ ایک ترقی پسند شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں وہ سارے عیب موجود ہیں جن کا ذکر ماہرؔ صاحب نے فرمایا ہے ۔ اس کے بعد مخدومؔ نے اپنے اشعار اور درد بھری آواز کے سحر میں حاضرینِ محفل کو لپیٹ لیا۔ آخر میں حسرتؔ موہانی نے جس انداز میں ماہر القادری کو ڈانٹا ہے اس کا تاثر میرے ( اُس وقت میں ایک لڑکا تھا) ذہن سے کبھی نہ مٹ سکا۔ آج بھی اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ حسرتؔ موہانی جیسا عظیم شاعر ترقی پسند ادب کی تحریک کو مثبت انداز سے دیکھتا تھا ، جب کہ اس کا اپنا رنگِ سخن قدیمی انداز کا اور پختہ تھا۔ میں تو عمر میں بہت چھوٹا تھا، لیکن اس کے باوجود مجھے قاضی عبدالغفار، مخدوم محی الدین، کیفی اعظمی، کرشن چندر، اسرار الحق مجازؔ، عصمت چغتائی جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے کے مواقع ملتے رہے ۔ دنیا بھر میں اتنی اہم نہ ہوئی ہو لیکن برّ صغیر ہند و پاک میں ترقی پسند ادب کی تحریک نے بڑی اہمیت اختیار کی۔ اردو، ہندی میں شاید ہی کوئی تحریک اس تحریک کی مماثل تخلیقی توانائیوں کی حامل ہو سکے ‘‘۔
انجمن ترقی پسند مصنفین پر روزِ اوّل سے کمیونزم کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ اور جیسا کہ جاوید صاحب نے مولانا ماہر القادری کا واقعہ سنایا بعض حلقے اس کا نام سُن کر ناک بھوں چڑھاتے تھے ۔ اسی دوران ایک ناگوار تغیّر پیدا ہوا ۔ عام معاشی و معاشرتی حالات کی نا مساعدت کے زیرِ اثر بعض شدّت پسند نوجوانوں نے جوشیلے پن میں انجمن ترقی پسند مصنفین کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا تہیّہ کر لیا اور ان کے زیرِ اثر انجمن نے کچھ ایسے فیصلے کئے جو ادب کے دائرے سے متجاوز تھے اور جن میں ہمہ گیری اور وسعت اثر کے بجائے انقطاع اور عصبیت کے عناصر کار فرما تھے ۔ یوں تو پاکستان میں حکومتی اقدامات جن میں تحریک پر قانونی بندش ، دفاتر پر قبضے، اکابرینِ تحریک کی گرفتاریاں شامل ہیں، تحریک کی شکست و ریخت کا باعث بنے لیکن تمام دنیا میں خود اس کے ماننے والوں کی انتہا پسندی اور تنگ نظری نے اس کو غیر معقول اور ناقابلِ قبول بنا دیا۔ کمیونسٹ روس کا ٹوٹنا تو اس اونٹ کی پیٹھ پر آخری تِنکا ثابت ہوا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ تحریک اور تحریکوں کی مانند اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔
جہاں تک عبداللہ جاوید صاحب کا تعلق ہے، ان کے خیال میں ترقی پسند ادب کی تحریک کسی نہ کسی روپ میں موجود ہے کیونکہ ادب میں مکمل خلاء کبھی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ کوئی ایک تحریک جڑ پکڑتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ تحریکوں کا ایک میلہ سا لگا ہے ۔ ایک جانب دنیا چھوٹی ہوتی جاتی ہے، ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوتے جاتے ہیں، تو دوسری جانب ادب میں تجارت در آئی ہے ۔ مارکیٹنگ سی ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ امریکہ خاص طور پر ادب کے آڑھتیوں کا ملک بن گیا ہے ۔ یہ آڑھتی ، ادبی تحاریک کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور ادب کی تجارت کے فروغ میں استعمال کرتے ہیں ۔ ہر تیسرے روز کہیں نہ کہیں کوئی نئی ادبی تحریک جنم لیتی ہے یا اس کے جنم کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے ۔ ایک تحریک کے ساتھ ہی اس کی رد میں اس سے مختلف تحریک میدان میں آ جاتی ہے ۔ جاوید صاحب نے کراچی کے ماہنامے ’’ الشجاع ‘‘ میں سب سے پہلے ساٹھ کی دھائی کے اوائل میں یہ آواز اٹھائی تھی کہ باہر سے در آمد شدہ ادبی اصطلاحات کو اندھا دھند استعمال کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیئے ۔ اور آج بھی وہ ہند و پاک کے ادیبوں اور شاعروں سے یہی اپیل کرتے نظر آتے ہیں کہ باہر سے جو کچھ بھی آئے اس کو اپنے دیس کی مٹّی میں اُگنے کا موقع دیا جائے خاص طور پر ادبی نظریات اور تحاریک کو کچھ وقت ضرور دیا جائے کہ وہ ہمارے شعری و ادبی مزاج سے آشنا ہو جائیں ۔ کچھ ان کا مزاج بدلے اور کچھ ہمارا مزاج بدلے ۔
عبداللہ جاوید صاحب کی تینوں کتابیں نہایت عمدہ کاغذ پر بے حد خوبصورتی اور سلیقے کے ساتھ اکادمی بازیافت، والوں نے کراچی سے شائع کی ہیں ۔ ’موجِ صد رنگ‘ پہلی مرتبہ 1969 میں لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کا یہ دوسرا ایڈیشن ہے ۔ جو کراچی سے 2006 میں شائع ہوا ہے ۔ ’ حصارِ امکاں‘ 2003 میں چھپی اور تیسرا مجموعہ ’ خواب سماں‘ 2006 میں شائع ہوا۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1969 میں شائع ہوتا ہے اور دوسرا شعری مجموعہ 2003 میں منظرِ عام پر آتا ہے ۔ درمیان کا وقفہ قریب قریب چونتیس برس پر محیط ہے ۔ اور اِس وقفے کا ذمہ دار جاوید صاحب خود کو ٹھہراتے ہیں کہ وہ اپنی کتابوں کی اشاعت میں خود ہی سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہے ! ۔ اِس وقت بھی جاوید صاحب کے تنقیدی مضامین کی دو کتابیں تیار ہیں ۔ البتہ افسانوں کو یکجا کرنے میں خرابیِ صحت کے سبب کچھ مشکل پیش آ رہی ہے ۔
عبداللہ جاوید صاحب کس سادگی سے یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ خود ہی اپنی کتابوں کی اشاعت پر قدغن لگاتے ہیں ۔ ! جہاں تک تخلیقی ادب کا تعلق ہے یہ از حد فعال رہے ہیں ۔ ان کی ادبی زندگی کے آغاز 1941 سے آج تک مختلف مقتدر ادبی رسائل، جرائد اور اخبارات میں (ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک میں ) ان کے افسانے، شعری تخلیقات،مضامین، خاکے، تنقیدی جائزے، تبصرے اور کالم شائع ہوتے رہے ہیں ۔ مشاعروں، مذاکروں اور ادبی جلسوں میں یہ تقریر کرتے یا مقالے پیش کرتے رہے ہیں، شعر سناتے رہے ہیں ۔ اب جبکہ ان کی رفیقۂ حیات اور صاحب زادے سہیل جاوید نے (جو ماشاء اللہ ایک بہت اچھے نثر نگار ہیں اور شہری، سماجی، فنّی، طبّی، اصلاحی اور نیم سیاسی موضوعات پر ان کے مضامین اور کالم تسلسل کے ساتھ مقامی اخبارات میں نظر سے گزرتے رہتے ہیں ) ان کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، تو ہمیں یقین ہے کہ ان کی اور کتابیں بھی بہت جلد ہمارے ہاتھوں میں ہوں گی۔ اسی ضمن میں اس وقت ہمیں جاوید صاحب کی شریکِ حیات معروف افسانہ نگار محترمہ شہناز خانم عابدی صاحبہ کے چند فقروں کا حوالہ مناسب لگ رہا ہے جو انہوں نے ’ حصارِ امکاں، کے پیش لفظ میں عبداللہ جاوید صاحب کے بارے میں لکھے ہیں ۔۔’’ کون شاعر ایسا ہے جس کو اپنے اشعار کی اشاعت بھلی نہ لگے ۔ شہرت کسے پیاری نہیں ہوتی، جاویدؔ بھی تمام تر بے نیازی کے باوجود اپنے کلام کی اشاعت چاہتے ہیں، مگر یہ کام ان کے بس کا نہیں۔۔ اگر اس معاملے کو میں اپنے ہاتھوں میں نہ لیتی تو شاید اس کتاب کی اشاعت کبھی عمل میں نہیں آتی ‘‘۔ جاوید صاحب کی شخصیت اور مزاج کے حوالے سے بیگم جاوید لکھتی ہیں ۔۔ ’’ جاویدؔ ایک اچھے آدمی اور بہت اچھے انسان ہیں، ہر ایک کے دکھ درد کو اپنا بنا لیتے ہیں، دروغ گوئی ان کی طبیعت میں بالکل نہیں ہے، صاف اور سچی بات کرتے ہیں، حسد اور کینہ پروری ان کی فطرت کو چھو کر نہیں گئی، اپنے دشمنوں کو معاف کر دیتے ہیں کبھی کسی سے بدلہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر کوئی دشمن اپنے کسی کام سے آئے تو پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس کا مسئلہ حل کر دیں، لیکن اس سے تعلقات نہیں رکھتے ‘‘۔مسز جاوید کی باتیں پڑھ کر اِس وقت ہمیں بیگم فیض احمد فیضؔ کی کہی وہ باتیں یاد آ رہی ہیں جو انہوں نے فیضؔ صاحب کے حوالے سے، ہمارے قیامِ بیروت کے دوران بارہا ہم سے کیں ۔۔ یقین کیجئے کہ ایلسؔ صاحبہ نے بھی اپنے شوہر کے مزاج اور شخصیت کے حوالے سے لفظ بہ لفظ یہی کہا، جو بیگم جاوید نے لکھا ہے !!
عبداللہ جاوید کی شاعری ہمارے سامنے ہے ۔ ہم ان کی شاعری کی ایک خصوصیت کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ موصوف ایک سینئر شاعر ہیں، لیکن ان کی شاعری آج کی شاعری ہے، گویا ان کی شاعری ۔۔ شاعری کی لفظیات، استعارات اور ابلاغِ شعر کے جملہ فنّی اور جمالی لوازمات وقت کے ساتھ سفر کر رہے ہیں ۔ ان کی فکر، حسیّت اور ان کے مضامین پر عصرِ رواں کی چھاپ موجود ہے ۔ ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شاعری عصری ہونے کے ساتھ ساتھ آفاقی ہے ۔
جاوید صاحب کی انکساری اور کم آمیزی ہر رنگ میں ظاہر ہوتی رہتی ہے ۔ عبداللہ جاوید کا تعلق ایک علمی، ادبی اور مذہبی گھرانے سے ہے ۔ ددھیال سے یوسف زئی افغان اور ننھیال سے ایرانی نژاد ہیں اور خود پاکستانی کینیڈین ہیں ۔ 16 دسمبر 1931 کو آپ نے غازی آباد میں جنم لیا۔ انگریزی ادبیات میں جامعہ کراچی سے ایم ۔اے کیا۔ سندھ مسلم لاء کالج سے LLBکر کے وکالت شروع کی لیکن جب پانچ سال چھوٹی عدالتوں میں پریکٹس کرنے کی شرط عاید ہوئی تو وکالت سے تائب ہو کر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اس دوران جامعہ سندھ سے اردو ادب میں ایم اے کی سند حاصل کی انگریزی ادب کے لیکچرار اور بعد میں انگریزی اور اردو ادب کے پروفیسر متعین ہوئے اور اپنے طالبعلموں میں زندہ جاوید ہو گئے ۔
یوں تو عبداللہ جاوید شعری تخلیقات کے معاملے میں ہنوز فعال ہیں، کوئی عجب نہیں کہ ان کا چوتھا شعری مجموعہ جلد منظرِ عام پر آ جائے، لیکن اِس وقت ہمارا مطالعہ ان کی تین شعری کتابوں تک محدود رہے گا۔ ان کی پہلی کتاب ’’ موجِ صد رنگ ‘‘ اور دوسری کتاب ’’ حصارِ امکاں ‘‘ کے درمیان تقریباً چونتیس برس کا وقفہ حائل ہے ۔ جبکہ ’’موجِ صد رنگ ‘‘ کا پہلا اڈیشن اشاعت کے چھ ماہ کے اندر ختم ہو گیا تھا۔ اس درمیانی وقفے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جاوید صاحب کی عزلت گزینی، شہرت گریزی اور درویشانہ بے نیازی حائل ہو گی۔
’’موجِ صد رنگ‘‘ پر ناقدین اور مبصّرین کی آراء کا سرسری جائزہ لے کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیسویں صدی کی ساٹھویں دہائی کے آخر میں شائع ہونے والی یہ شعری کتاب ، تاریخ کے اس موڑ پر کھڑی ہے جہاں جنگِ عظیم دوم کے بعد پیدا ہونے والی دنیا اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ روس بطور ایک عالمی طاقت ، اشتراکیت بطور ایک اقتصادی نظام اور ترقی پسند ادب کی تحریک سلامِ رخصت پیش کر رہے ہیں ۔ ہر لحاظ سے یہ کتاب اپنے دور کی ہی نہیں بلکہ آج کے کے دور کی ایک اہم شعری کتاب ہے ۔ اس میں شائع شدہ نظمیں اور غزلیں ہمارے اور آپ کے ذہن و دل سے کچھ اس طرح ہم آہنگ ہیں کہ ہماری اپنی کہی ہوئی لگتی ہیں ۔ اس شاعری کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں فکر اور جذبہ باہم آمیز ہو کر ایک کیمیائی مرکبّ کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ غیر مرئی احساسات ٹھوس حقائق کے قالب میں ڈھلتے نظر آتے ہیں ۔ شاعری کہیں کہیں ماورائیت کی سرحدوں کو چھونے لگتی ہے ۔
’’موجِ صد رنگ ‘‘ کے موضوعات پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے جیسے کائنات اپنی تمام تر رنگارنگی کے ساتھ ان صفحات پر اُتر آئی ہو۔ آج کے دور کی عظیم فکشن نگار قرۃ العین حیدر اور فلسفی تاریخ نگار ٹوئن بیؔ کی مانند جاوید صاحب کی فکریات کا اہم موضوع ’ وقت، ہے ۔ وقت جس کو ماضی حال اور مستقبل میں تقسیم کیا گیا ہے، لیکن وہ اس تقسیم سے ماوراء رہا ہے، کیونکہ ماضی حال میں موجود رہتا ہے اور مستقبل بھی حال میں نمو پاتا ہے۔۔
آج اور کل ہے پھیر لفظوں کا
وقتِ موجود کی بِنا ، دونوں
وقت جو کبھی نہ ٹھہرنے کے باوجود ٹھہرتا بھی ہے ۔ رواں ہونے کے با وصف جامد بھی ہے ۔ نا وقت بھی ہے ۔ اس سے متعلق ہو کر حقیقت جو زمانی اور مکانی ہے لا زمانی و لامکانی بھی ہو جاتی ہے ۔ وقت کا موضوع جاوید صاحب کے ہاں فلسفیانہ فکری موشگافی کے طور پر نہیں آتا بلکہ شعری اور وجدانی، بیشتر صورتوں میں حسّی ابلاغ و اظہار کے طور پر آتا ہے ۔ ان کا فن فکر اور احساس کی ایسی تجسیم ہے جو زندہ اور زندگی کے درد سے معمور ہے ۔ تجسیم اور تجرید کو باہم متبدّل کر کے وہ اپنے ابلاغ کا جادو جگاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ’وقت‘ عبداللہ جاوید کی شاعری میں ایک زندہ، متحرک، فعال وجود کے طور پر موجود ہے ۔ وہ کبھی کوئی طائرِ آزاد، مصروفِ پرواز ہے، تو کبھی پنجرے کا پنچھی ، کبھی یاد کے پردے پر مصورّ کیا ہوا ایک نقشِ دوام، تو کبھی ایک تاریخ جو لمحاتِ ساکت میں قید ہو کر ’وقتِ لافانی ، اور ’ لا وقت‘ کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ ازل سے ابد تک بہتے ہوئے دھارے کی صورت میں وقت اپنے سفر میں زندگیاں ابھارتا ہے اور ڈبوتا بھی ہے، ایک تسلسل میں وقوع پذیر ہونے والے عمل کے طور پر۔ وقت ہی ہے جو زمین اور زمین کے باسیوں کے دلوں میں طرح طرح کے گھاؤ لگاتا ہے، تو آسمان کو سورج، چاند اور تاروں کے جلتے ہوئے روشن زخموں کے ناسور عطاء کرتا ہے ۔ ہر نئے دن کا نور، ہر رات کے چاند کو نگل جاتا ہے، اور ہر نئی شام اس دن کا سورج اپنے پیچھے ماتم چھوڑ کر ڈوب جاتا ہے ۔ وقت کا سیلِ رواں کبھی خوابوں کے جزیرے ابھارتا ہے اور ان خوابوں کے جزیروں میں نئے نئے شہر آباد ہوتے ہیں اور ہر نیا شہر قلوپطرہ کے شہر کا تازہ بہروپ بھر لیتا ہے ۔ کبھی وقت کا لمحہ لمحہ ، رُک رُک کر یہ سوال کرتا جاتا ہے کہ ’’ کون ہو ؟ کس لیے آئے ہو ؟ ‘‘ کبھی شاعر بھاگتے لمحوں کے پیروں سے لپٹ کر، ان کو خدائے تعالیٰ کا واسطہ دے کر رکنے کی، قدم روک لینے کی گدایانہ التجا کرتا ہے، تاکہ ان کو سمجھنے کی مہلت ملے لیکن بھاگتے لمحوں نے اس کی التجا کو ٹھکرا دیا، آگے بڑھ گئے، اس کی جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھا۔ یہی نہیں بھاگتے لمحے اپنے ساتھ روشنی بھی لے گئے اور زندگی کی دھنک کے رنگ اُڑ گئے، رات کا حُسن لُٹ گیا ، صبح کا طلسم ٹوٹ گیا، بہار کی خوبصورتی ماند پڑگئی ، خزاں کا رومان رخصت ہوا ، ریشمی پردے سرک گئے اور یوں وقت نے ہر شے کا لباس کھینچ کر اتار پھینکا اور زندگی کو عریاں کر کے چھوڑ دیا۔ وقت کو جب ہم حُسن و عشق کے معاملات کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں لمحوں کی زد میں حُسنِ محبوب بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ شاعر کو یہ کہ کر اپنے آپ کو دلاسا دینا پڑتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگ محبوب کو کاغذ کا پھول خیال کرنے لگتے جو تبدیلیوں سے ماورا ہوتا ہے ۔ آدمی باتیں خواہ لمحوں کی کرے، لیکن اس کے شانوں پر صدیوں کا بوجھ ہوتا ہے ۔ ’’موجِ صد رنگ ‘‘ میں ایک ایسی غزل بھی ملتی ہے جس میں ’ وقت، بطور ردیف ہے ۔ اس غزل میں استعاروں کے پیکروں کے وسیلے سے وقت کی رمزیت کے متنوع اسرار وا کئے گئے ہیں ۔ اس غزل میں وقت بہ یک وقت گونگا بھی ہے اور گویا بھی، کسی کا بھی ہم دم ہے نہ رفیق ہے اور نہ ہی ہم نوا، لیکن وہ سب کا رازداں ضرور ہے ۔ اگر اس کو ٹالو تو اس کی قدر اڑتے ہوئے دھوئیں سے زیادہ نہیں، لیکن ضروری نہیں کہ تنکے جتنا ذہن رکھنے والے اس کا وجدان کر پائیں ۔ یہ بھی نہیں کھلتا کہ وقت رواں ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم رواں ہوں ۔ افراد کو چھوڑکر قوموں کے بارے میں غور کریں تو لگتا ہے کہ جسے ہم تاریخ کہتے ہیں وہ وقت کے قدموں کی گرد کے سوا کچھ نہیں ۔ وقت ہست و بود کا وہ کارواں ہے جس کے ساتھ سفر کرنا لاکھ ناگزیر سہی پھر بھی زمانہ سازی اور ا بن الوقتی ناقابلِ جواز ہی رہتی ہے، چنانچہ شاعر وقت کے ساتھ بدلنے والے لوگوں سے یہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ وقت ان کا بھی یار کب ہو گا ؟۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت کی سفاکی سے مفر نہیں ہے جو شمشیر بدست ہے، کیونکہ کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا کہ موت زندگی سے مصروف بہ پیکار نہ ہو۔ اس صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھنے کے باوجود شاعر کا ایمان ہے کہ وقت کے ساتھ وہی قومیں فنا ہوتی ہیں جو کہنہ روایات کے ساتھ صلح کر لیتی ہیں ۔ عبداللہ جاوید وقت کی جدلیات سے چشم پوشی نہ کرتے ہوئے بھی وقت کے اس حسیّ وجدان سے دست بردار نہیں ہوتے جو ان کے درجِ ذیل شعر میں منکشف ہو رہا ہے۔۔۔
برسوں کے حالات بھی کل کی بات لگیں
دل کے اندر صدیاں بھی لمحات لگیں
وقت کے اس ادراک کو ہم شعری ادراک کا نام نہ دیں تو اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔ اسی طرح گزرے ہوئے وقت کے نہ لوٹنے کے نظریئے کی یہ پیش کش مندرجہ ذیل شعر میں کس قدر شاعرانہ ہو گئی ہے۔۔
ہر ایک لمحۂ گزراں کا احترام کرو
بچھڑنے والا کبھی لوٹ کر نہیں آیا
شاید وقت کا شعری وجدان ہی عبداللہ جاوید کے اس شعر کا روپ دھارتا دکھائی دیتا ہے ورنہ نور کی رفتار اور زمانے کی رفتار کا تقابل یوں نہ دیکھنے کو ملتا۔۔
وفا کے نام پہ رُکنے سے پہلے یاد رکھو
زمانہ نور کی مانند ہے سبک رفتار
عبداللہ جاوید اور ’’ ہونے یا نہ ہونے ‘‘ کا مسئلہ:
عبداللہ جاوید صاحب کے ’ تصوّرِ وقت، کے بعد ان کے پڑھنے والوں کا واسطہ ’’ ہونے اور نہ ہونے ‘‘کے تصوّر سے پڑتا ہے ۔ اس کے ڈانڈے قدیم ترین مشرقی فکر سے ملتے ہیں ۔ چین، ایران اور ہندوستان اس تصوّر کے خاص ملک ہیں ۔ مغرب میں فرانس اور جرمنی میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ یہاں ہم صاف طور پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس تصوّر سے ناآشنائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی ساتھ ہم یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے کہ جاوید صاحب نے اِس تصوّر کو نہ صرف غیر معمولی اہمیّت کا مقام عطاء کیا ہے بلکہ تخلیقی تازہ کاری سے ندرتِ فکر کے مرتبے تک پہنچا دیا ہے ۔ اس موضوع پر ان کی انفرادیت دیکھنے اور حیران ہونے کے لائق ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ تو ’’ ہونے ‘‘ کے اثبات کی جانب اپنی ترجیح کا اظہار کرتے ہیں، نہ ہی ’’ نہ ہونے ‘‘ کی جانب اور اس طرح اپنے قاری کو بھی کسی ایک طرف جھکنے سے روکے رکھتے ہیں ۔ یوں بھی یہ تصوّر ہی کچھ کم پیچیدہ نہیں ہے، اس کو جاوید صاحب مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں ۔ ان کے اس درج ذیل شعر ہی کو لیجئے، فرماتے ہیں۔۔
نہ ہونے پر بھی ہوں، میں ابتداء سے انتہا تک ہوں
مرا ہونا کوئی دیکھے، میں بندے سے خدا تک ہوں
***