صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
دُرِشہوار
سرور عالم راز سرور
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
صبحِ عشرت دیکھ کر، شامِ غریباں دیکھ کر
محوِ حیرت ہوں میں رنگِ بزمِ امکاں دیکھ کر!
ہر قدم پر اک تقاضا، ہر گھڑی حسرت نئی!
میں چلا تھا راہ و رسمِ دہر آساں دیکھ کر!
کوئی بتلائے کہ یہ مشکل محبت تو نہیں؟
ہم پریشاں ہو گئے اُنکو پریشاں دیکھ کر!
اس قدر ہے خاک سے نسبت مِری تقدیر کو
یاد آ جاتا ہے اپنا، گھر بیاباں دیکھ کر
اُٹھ گئی رسمِ محبت، سرد ہے بازارِ عشق
دل تڑپتا ہے متاعِ غم کو ارزاں دیکھ کر
زندگی گزری کسی کی آرزو کرتے ہوئے
اور اب حیراں ہوں میں یہ شہر ویراں دیکھ کر
بات کیا ہے ، یاد کیوں آتا ہے انجامِ حیات؟
موسمِ گل دیکھ کر، رنگِ بہاراں دیکھ کر
کیا ملا سرور تمھیں اِس پارسائی کے طُفیل؟
اُس کو کافر سوچ کر، خود کو مسلماں دیکھ کر!
محوِ حیرت ہوں میں رنگِ بزمِ امکاں دیکھ کر!
ہر قدم پر اک تقاضا، ہر گھڑی حسرت نئی!
میں چلا تھا راہ و رسمِ دہر آساں دیکھ کر!
کوئی بتلائے کہ یہ مشکل محبت تو نہیں؟
ہم پریشاں ہو گئے اُنکو پریشاں دیکھ کر!
اس قدر ہے خاک سے نسبت مِری تقدیر کو
یاد آ جاتا ہے اپنا، گھر بیاباں دیکھ کر
اُٹھ گئی رسمِ محبت، سرد ہے بازارِ عشق
دل تڑپتا ہے متاعِ غم کو ارزاں دیکھ کر
زندگی گزری کسی کی آرزو کرتے ہوئے
اور اب حیراں ہوں میں یہ شہر ویراں دیکھ کر
بات کیا ہے ، یاد کیوں آتا ہے انجامِ حیات؟
موسمِ گل دیکھ کر، رنگِ بہاراں دیکھ کر
کیا ملا سرور تمھیں اِس پارسائی کے طُفیل؟
اُس کو کافر سوچ کر، خود کو مسلماں دیکھ کر!
* * * *
اظہارِ الم، شکوۂدوراں نہیں کرتے
ہم رحمتِ یزداں کو پشیماں نہیں کرتے!
جو کرتے ہیں یہ خار، نمایاں نہیں کرتے
ہم جان کے توہین بہاراں نہیں کرتے
اے دل! یہی آنسو تو ہیں سوغاتِ محبت
نادان! علاجِ غمِ پنہاں نہیں کرتے!
اربابِ خرد حال پہ میرے ہیں پریشاں
اور اپنی ہی وہ فکرِ گریباں نہیں کرتے!
مانوس ہوں دار و رسنِ عشق سے ایسا
دنیا کے خم و پیچ پریشاں نہیں کرتے
جو میری وفاؤں سے پریشاں ہیں، خدایا!
کیوں میرے غم و درد کا درماں نہیں کرتے؟
واقف ہوں نہاں خانۂ ہستی سے میں ایسا
دنیا کے تماشے مجھے حیراں نہیں کرتے
کیا فرض ہے سرور کہ بنو عشق میں کافر؟
کیوں اُس بت کافر کو مسلماں نہیں کرتے؟
ہم رحمتِ یزداں کو پشیماں نہیں کرتے!
جو کرتے ہیں یہ خار، نمایاں نہیں کرتے
ہم جان کے توہین بہاراں نہیں کرتے
اے دل! یہی آنسو تو ہیں سوغاتِ محبت
نادان! علاجِ غمِ پنہاں نہیں کرتے!
اربابِ خرد حال پہ میرے ہیں پریشاں
اور اپنی ہی وہ فکرِ گریباں نہیں کرتے!
مانوس ہوں دار و رسنِ عشق سے ایسا
دنیا کے خم و پیچ پریشاں نہیں کرتے
جو میری وفاؤں سے پریشاں ہیں، خدایا!
کیوں میرے غم و درد کا درماں نہیں کرتے؟
واقف ہوں نہاں خانۂ ہستی سے میں ایسا
دنیا کے تماشے مجھے حیراں نہیں کرتے
کیا فرض ہے سرور کہ بنو عشق میں کافر؟
کیوں اُس بت کافر کو مسلماں نہیں کرتے؟
* * * *
نگا ہیں ملا نا، نگا ہیں چرانا!
کوئی اُن سے سیکھے نظر میں سمانا
بہت سُن چُکے رنج و غم کا فسا نہ
ذرا ایک ساغر اِدھر تو بڑھا نا
یہی چند آنسو، یہی چند آہیں
مِری زندگی کا بنی ہیں بہانہ!
یہی بزمِ فانی، یہی دورِ امکاں!
یہی، کیا یہی ہے ترا آستانہ؟
یہ ہے بزمِ ساقی، یہاں ہوش کیسا؟
یہاں تو خودی کا نہیں ہے ٹھکانہ
تمھیں کیا خبر میرے دل کی خلش کی
ذرا پھر تو اک بار نظریں ملانا!
وہ سرور! وہی پارسا! رند مشرب؟
کہاں اُس نے سیکھا ہے پینا پلانا!
***