صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


شاہکار رسالت

مؤلف : مرتضیٰ مطہرى (آیۃ اللہ شہید)
مترجم / مصحح : عابد عسکری

 لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

 قرآن کی روسے امت مسلمہ ایک امت وسط ہے

یہ بات ظاہر ہے کہ یہ امت ایسی تعلیمات کی پروردہ ہے جو توسط و تعادل کی حامل ہے۔قرآن کی یہ آیت ختمی امت اور ختمی تعلمیات کا ذکر صرف ایک کلمہ کے ذریعہ کر دیتی ہے اور وہ وسطیت و تعادل ہے۔
ہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام انبیاء کی تعلیمات میں وسطیت اور تعادل موجود نہیں رہا ہے۔اس سوال کے جواب میں کچھ کہنا ضروری ہے۔
اس روئے زمین پر انسان ہی ایک جاندار مخلوق نہیں ہے اور صرف وہی اجتماعی انداز میں زندگی بسر کرنے کا عادی نہیں ہے، دوسری جاندار مخلوقات بھی ہیں جو مقررہ معمولات، ایک خاص نظم اور ڈھانچے کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں انسان کے بر عکس ان کی زندگی جنگل کے زمانے پتھر کے زمانے لو ہے کے زمانے ایٹم کے زمانے سے آشنا نہیں ہے۔روز اول سے جب سے کہ وہ وجود میں آئی ہیں ان کی زندگی کا ایک ہی منظم ڈھانچہ ہے یہ انسان ہی ہے جو اس آیت قرآنی کے مطابق"
"و خلق الانسان ضعیفاً" 5
ترجمہ:"انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔"
اپنی زندگی کا آغاز صفر سے کرتا ہے اور ترقی کے لامتناہی راستے پر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔انسان فطرت کا ایک ہونہار اور بالغ فرزند ہے اسی لئے اسے آزادی و خود مختاری حاصل ہے اسے کسی مستقل ناظم و سرپرست اور ایسی جبری ہدایت کی ضرورت نہیں جس پر عمل کرنے کے لئے کوئی پوشیدہ اندرونی قوت اسے مجبور کرے۔دوسرے جاندار جو کچھ جبلت کے سامنے سر جھکا کر انجام دیتے ہیں وہ انسان آزادانہ ماحول میں عقل و قوانین کے مطابق انجام دیتا ہے:
"انا ہدینٰہ السبیل اما شاکراًو اما کفوراً" 6
ترجمہ:"ہم نے اسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا ہے یا کفر کرنے والا۔"
انسان میں انحراف و سقوط اور جمود و انحطاط پایا جاتا ہے جبکہ دوسرے جاندار ایک حالت پر قائم رہتے ہیں۔وہ اس بات پر قدرت نہیں رکھتے کہ سوچ سمجھ کر کہ خود آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، سیدھی جانب کا رخ کریں یا بائیں سمت کا تیز چلیں یا آہستہ اس کے بر عکس انسان اپنی عقل و شعور سے کام لے کر آگے بھی قدم بڑھا سکتا ہے پیچھے بھی ہٹ سکتا ہے وہ دائیں یا بائیں کسی بھی سمت مڑسکتا ہے وہ تیز بھی چل سکتا ہے اور آہستہ بھی وہ ایک بندۀ شاکر بھی بن سکتا ہے اور سرکش کافر بھی۔اس طرح وہ افراط و تفریط کے درمیان کھڑا نظر آتا ہے۔
انسانی معاشرہ کبھی اس طرح عادات کا اسیر اور جامد و ساکن ہو جاتا ہے کہ کوئی موثر طاقت ہی اس کی زنجیروں کو کاٹ کر اسے حرکت میں لا سکتی ہے۔کبھی انسانی معاشرہ پر حرص و طمع اور نئی راہوں پر چلنے کی خواہش اس طرح مسلط ہو جاتی ہے کہ وہ فطرت کے اصول و قوانین تک کو بھلا بیٹھتا ہے اور کبھی وہ غرور و خود پرستی اور تکبر میں غرق ہو جاتا ہے، اسے خود بینی کی راہ سے ہٹا کر زہد و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالنے کے لئے کسی اثر انداز ہونے والی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اپنے حقوق کے ساتھ دوسروں کے حقوق کا بھی خیال رکھ سکے جب یہی انسانی معاشرہ آرام طلبی مادر پدر آزادی اور ظلم و ستم کی راہ پر چل پڑتا ہے تو اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ نے اور اس میں حقوق کا شعور احساس کے پیدا کرنے کے سوا اور چارہ نہیں ہوتا۔
یہ بات واضح ہے کہ تیزی کے ساتھ پیش قدمی ہو یا سست روی بائیں جانب میلان ہو یا دائیں جانب ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک خاص لائحہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر معاشرہ کا انحراف دائیں جانب ہو تو اصلاح کرنے والی طاقت کو اسے بائیں جانب موڑنے کی کوشش کرنی ہو گی دورسری صورت میں اسے اس کے بر عکس عمل کرنا ہو گا۔
ہی وجہ ہے کہ کسی ایک زمانے اور کسی ایک قوم کی اصلاح کے لئے کوئی تدبیر دوا کی حیثیت رکھتی ہے تو وہی تدبیر دوسرے دور اور دوسری قوم کے لئے ایک مرض مہلک میں مبتلا کرنے کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ بظاہر مختلف انبیاء کے درمیان ایک اختلاف نظر آتا ہے کسی پیغمبر  کو جنگ کی راہ اختیار کرنی پڑتی ہے تو کسی کو صلح کی کوئی نبی نرمی سے کام لیتا ہے تو کوئی سختی سے کسی پیغمبر کو انقلابی انداز میں کام کرنا پڑتا ہے تو کسی کو اعتدال و سلامتی کی راہ اپنانی پڑتی ہے۔ایک پیغمبر کا سارا دور ابتلا و  آزمائش سے بھرا ہوتا ہے تو دوسرے پیغمبر کے حصے میں فتح و نصرت بھی آتی ہے۔انبیاء کے درمیان اختلافات کا تعلق ان کے اس روئے سے ہے جو وہ اپنے زمانے کے حالات کے پیش نظر اختیار کرتے ہیں ورنہ ہدف کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ہدف تمام انبیاء کا یک ہی ہے اور راستہ وہی صراط مستقیم ہے۔
قرآن کریم نے قصص انبیاء کے ضمن میں پوری طرح اس بات کی نشان وہی کی ہے کہ پیغمبروں میں سے ہر ایک مبداء و معاد سے متعلق اپنی مشترک تعلیمات کے تحت کسی ایک خاص نکتہ پر زور دیتا ہے وہ ایک مخصوص لائحہ عمل کے اجراء پر مامور ہوتا ہے یہ بات قصص قرآنی کے مطالعہ سے بخوبی روشن ہو جاتی ہے۔
مصلحین جب کسی تیزی سے آگے قدم بڑھانے والے یا پسماندہ معاشرہ میں دائیں یا دائیں جانب مائل معاشرہ میں ظہور کرتے ہیں اور اصلاح کا کام شروع کرتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک متعین لائحہ عمل صرف ایک محدود مدت کے لئے قابل اجراء ہوتا ہے اور معاشرہ کسی بھی نوعیت کا ہوا سے راہ عدل پر لانے کے لئے اس سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے جتنی کہ دوسری جانب سے اسے انحطاط و انحراف کی راہ پر ڈالنے کے لئے کی جاتی ہے۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں  

   ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں  مشکل؟؟؟

یہاں  تشریف لائیں ۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں  میں  استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں  ہے۔

صفحہ اول