صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


شہید اور دوسرے افسانے 

علی حسن سمند طور

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                       ٹیکسٹ فائل

ختم

وہ جمعے کا روز تھا جب اچانک خبر آئی کہ حیرت انگیز طور پہ دنیا بھر میں موجود تیل کے تمام کنووں میں اچانک کوئی خرابی ہو گئی ہے اور کسی کنویں سے تیل کا ایک قطرہ بھی نہیں نکل پا رہا۔ وہ تیل کہ جس سے دنیا کا کاروبار چل رہا تھا، لاکھوں سال پہلے گزر جانے والے جانوروں اور درختوں سے بننے والا تیل، بس اچانک ہی بند ہو گیا تھا۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ تیل نکالنے کے عمل میں یہ خرابی دنیا بھر میں بیک وقت واقع ہوئی تھی۔ سعودی عرب میں، کویت میں، ایران میں، وینزویلا میں، سائبیریا میں، اور دیگر مقامات پہ جہاں جہاں تیل کے کنویں تھے وہاں ہر طرح کے جتن کیے گئے کہ تیل نکالنے کا عمل پھر شروع ہو سکے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ ہر جگہ ایک جیسی ترکیبیں استعمال کی گئیں۔ پمپ بدلے گئے ، پائپ کو صاف کرنے کا کام ہوا مگر ہر تدبیر ناکام رہی اور تیل نکالنے کا کام دوبارہ شروع نہ ہو پایا۔ یہ خبر جب ذرائع ابلاغ کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچی تو کھلبلی مچ گئی۔ کیا تیل کے ہر کنویں میں تیل موجود تھا، اور بس نکل نہیں پا رہا تھا یا تیل کے ذخائر کے متعلق اندازے بالکل غلط ثابت ہوئے تھے اور سارے کنویں اچانک خشک ہو گئے تھے ؟ لوگوں میں بلا کی بے چینی تھی۔ عوام الناس کے اضطراب کو رفع کرنے کے لیے سربراہان ممالک نے بیانات جاری کرنے شروع کیے ۔ شروعات روس کے صدر نے کی۔ انہوں نے ٹیلی وژن سے نشر کیے جانے والے ایک خطاب میں روسیوں کو یقین دلایا کہ تیل نکالنے کے عمل میں واقع ہونے والا خلل محض وقتی تھا۔ کہ تیل کے کنووں پہ کام کرنے والے تمام انجینئیر اور تکنیکی عملہ رات دن کام میں مصروف تھے ۔اور یہ کہ امید تھی کہ پیر تک یہ مسئلہ حل ہو جائے گا اور کاروبار دنیا کی رگوں میں ایک بار پھر تیل دوڑنا شروع ہو جائے گا۔ پھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی اسی نوعیت کا بیان دیا۔ مختلف ممالک کے سربراہان نے بھی اپنے اپنے ملک کی رعایا کو یقین دلایا کہ تیل کے کنووں میں ابھی بہت تیل باقی تھا اور خرابی تیل کشی کے عمل میں تھی۔ کہ مصیبت عارضی تھی اور مسئلہ پیر تک حل ہو جائے گا۔

اس بحران کا فوری اثر تو یہ ہوا کہ تیل کے دام اچانک چڑھ گئے ۔ پیٹرول بہت مہنگا ہو گیا۔ جن لوگوں کے پاس تیل موجود تھا، گاڑیوں کی ٹنکیوں میں یا دوسرے طریقوں سے ، وہ پیر کا انتظار کرنے لگے ۔ انہوں نے خود کو اطمینان دلایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہ تھی۔ کہ وہ لوگ بے وقوف تھے جو مہنگے داموں تیل خرید رہے تھے ۔ پیر تک گتھی سلجھی تو تیل کی قیمتیں بھی خود بخود نیچے آ جائیں گی۔

سنیچر گزرا، اتوار گزرا، اور پھر پیر کا روز آگیا۔ مگر وہ خوش خبری نہ آئی کہ جس کا سب کو انتظار تھا۔ یہ خبر آئی کہ بہت کوشش کے باوجود کسی بھی جگہ تیل نکالنے کے عمل میں خرابی رفع نہ کی جا سکی تھی۔ اب تو لوگوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ تیل کی قیمت ہوش ربا ہو گئی۔ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ ان ممالک میں جہاں قانون کی حکمرانی کمزور تھی چھینا جھپٹی شروع ہو گئی۔ کئی علاقوں میں لوگوں نے ریفائنریوں پہ دھاوا بول دیا۔ دنیا کی معیشت ذرا سی دیر میں بیٹھ گئی۔ اشیائے خورد و نوش سمیت ہر چیز کے دام آسمان چھونے لگے ۔ کرنسی نوٹ قریباً بے معنی ہو گئے ۔ لوگ اپنی اپنی ضرورت کے حساب سے آپس میں چیزوں کا تبادلہ کرنے لگے ۔


آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آپ کے سامنے یہ تاریخ کیوں دہرا رہا ہوں، کہ آخر آپ نے بھی تو یہ تمام حالات دیکھے ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ گو تیل کے اچانک اختتام سے متعلق ہر شخص کی کہانی بالکل جدا اور بے حد دلچسپ ہے ، میں دنیا کے ان چند لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے تیل سے اڑنے والے ہوائی جہاز کی آخری آخری سواری کی ہے ۔ اس بات کو نیل گائے کے ناپید ہونے کے عمل سے واضح کرنا چاہوں گا۔ جب نیل گائے ہمارے علاقے میں ناپید ہوئی تو ایک مقامی شخص تھا جس نے آخری بار نیل گائے کا گوشت کھایا تھا۔ بس اسی طرح ہمارے علاقے میں مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ میں ان آخری لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے ناپید ہونے والے تیل سے اڑنے والے ہوائی جہاز کی سواری کی تھی۔


جس روز یہ خبر آئی کہ دنیا بھر کے تیل کے کنووں سے تیل نکلنا اچانک بند ہو گیا تھا اس روز میں سان فرانسسکو  میں  ٹیکسی چلا رہا تھا۔ نہ جانے کیسے مجھے یہ احساس ہوا کہ معاملہ کچھ سنگین ہے اور آسانی سے حل نہ ہو پائے گا۔ اپنی چھٹی حس سے پانے والے اشارے کو قبول کرتے ہوئے میں نے ایک جاننے والے ٹریول ایجنٹ کو فون ملا دیا۔

"سلیم بھائی، مجھے فوری طور پہ پاکستان جانا ہے ؟ مجھے جلد از جلد کب کا ٹکٹ مل سکتا ہے ؟" میں نے فون کر کے پوچھا۔ سوہنی دھرتی ٹریول ایجنسی کے مالک سلیم بھائی سے میری پرانی جان پہچان تھی۔

سلیم نے میری آواز میں موجود گھبراہٹ کو بھانپتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔

"کیوں شہزادے ، سب خیر تو ہے ؟ پاکستان میں سب لوگ خیریت سے ہیں نا؟"

سلیم کا یہ سوال بہت مناسب تھا کیونکہ مجھ جیسے نوکری پیشہ لوگ پاکستان اچانک اسی وقت بھاگتے ہیں جب ان کا کوئی چاہنے والا یا تو قریب المرگ ہوتا ہے یا اچانک گزر گیا ہوتا ہے ۔

میں نے سلیم بھائی کو یقین دلایا کہ پاکستان میں سب خیریت ہے ۔

تو پھر میں اچانک پاکستان کیوں جانا چاہتا تھا۔ سلیم بھائی نے مجھ سے پوچھا۔

اس نوعیت کا سوال ایک ٹریول ایجنٹ کے منہ سے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ ٹریول ایجنٹ کو تو بس ٹکٹ بیچنے سے مطلب ہونا چاہیے ۔ لوگ جتنی جلدی جلدی ادھر ادھر جائیں اتنا ہی ٹریول ایجنسی کے لیے اچھا ہے ۔ مگر سلیم بھائی سے دیرینہ شناسائی کی وجہ سے ان کو مجھ سے اس قسم کا سوال پوچھنے کا حق تھا۔

"میں فوری طور پہ پاکستان اس لیے جانا چاہتا ہوں کیونکہ میں یہاں اٹک نہیں جانا چاہتا۔"

"اس بات کا کیا مطلب ہے ، شہزادے ؟" سلیم بھائی نے بہت اطمینان سے پوچھا۔

"اس بات کا یہ مطلب ہے کہ مجھے فورا پاکستان پہنچا دو اس سے پہلے کہ جو جہاں ہے وہیں جم کر رہ جائے ۔" میں نے بھی اطمینان سے جواب دیا۔

"یار، تم کن پہیلیوں میں باتیں کر رہے ہو؟ صاف صاف بتاؤ کیا کہنا چاہتے ہو۔" اب سلیم جھنجھلا گیا تھا۔

میں نے سلیم بھائی کو یقین دلایا کہ اگر وہ مجھے فوری طور پہ پاکستان کا ایک ٹکٹ دلا دیں تو میں ان کے دفتر آ کر انہیں پوری بات سمجھا دوں گا۔

اور یوں مجھے اتوار کی رات سان فرانسسکو سے روانہ ہونے کا ٹکٹ مل گیا۔ ہونے والی بکنگ کے حساب سے میں منگل کی صبح کراچی پہنچ رہا تھا۔ میں نے بہت دم لگایا کہ مجھے ایسی پرواز مل جائے کہ میں پیر کے روز ہی کراچی پہنچ جاؤں مگر سلیم بھائی یہ کرشمہ نہ دکھا پائے ۔ وہی "تمام فلائٹیں بالکل بک چل رہی ہیں" والی بات سننے کو ملی۔

جس وقت میں سان فرانسسکو سے دبئی کے لیے روانہ ہوا اس وقت تک یہی خبر تھی کہ دنیا بھر کے تیل نکالنے والے ادارے پیر کی صبح لوگوں کو خوش خبری دیں گے ، اور "پیر کی صبح" کا وہ وقت ابھی کہیں نہ آیا تھا۔


جب جہاز دبئی میں اترا تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔ مجھے اطمینان ہوا کہ اب اگر تیل کا آخری قطرہ بھی ختم ہو گیا اور دنیا بھر میں بچ جانے والے تیل کے ذخائر پہ ہر جگہ کی فوج نے قبضہ بھی کر لیا اور اس صورتحال میں شہری ہوا بازی اچانک ختم بھی ہو گئی تو میں کسی نہ کسی طرح دبئی سے کراچی پہنچ سکتا تھا۔ ہوائی جہازوں کی مکمل چھٹی ہو جانے کی صورت میں یا تو کوئی بادبانی کشتی مجھے دبئی سے کراچی پہنچا دے گی یا پھر میں خلیج فارس سے عراق اور پھر ایران سے گدھے یا گھوڑے پہ سواری کرتا ہوا واپس کراچی پہنچ جاؤں گا۔


اپنی کہانی یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے پورا یقین ہے کہ آپ بقیہ بات کو آگے تک مکمل کر سکتے ہیں۔ کہ کس طرح تیل کے بچ جانے والے ذخائر "دفاعی ضروریات" کی مد میں استعمال کرنے کے فیصلے دنیا بھر میں کیے گئے تھے ۔ کس طرح ہوائی جہاز، بسوں، اور ٹرینوں کی آمد و رفت میں خلل واقع ہوا تھا۔ میری دبئی سے کراچی والی پرواز منسوخ ہو گئی تھی۔ دبئی کے ہوائے اڈے پہ دو دن گزارنے کے بعد مجھے اسلام آباد کی ایک پرواز میں چڑھایا گیا۔ پھر میں اسلام آباد سے کراچی سائیکل سے پہنچا تھا۔ اور میں نے اس پوری مدت میں انسانی درندگی اور ایثار کے ایسے ایسے نمونے دیکھے کہ جنہیں لکھنے کے لیے بہت وقت چاہیے ۔ میں کراچی پہنچا تو وہاں افراتفری کا عالم تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ شہروں میں خوراک عنقا ہونے والی تھی۔ اور اسی لیے میں اپنے ماں باپ اور دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ کراچی سے باہر نکل گیا۔ ہمارے پاس دو سائیکلیں تھیں۔ میں نے کچھ اور سامان کا انتظام کر لیا تھا کہ اپنے لیے ایک چھوٹی سی پون چکی بنا سکوں۔ ہم لوگ اپنے دور پرے کے ایک ایسے رشتہ دار کے پاس پہنچ گئے جن کے پاس پانچ ایکڑ کا ایک فارم تھا۔ اسی جگہ ہم نے اپنا کھانا اگا کر، اپنے لیے پانی صاف کر کے ، تھوڑی بہت بجلی بنا کر اپنا گزارا کیا ہے ۔ اور اب اس بات کو سال بھر ہونے کو آیا ہے ۔ اب جا کر دنیا توانائی کے اس اچانک بحران سے باہر نکل رہی ہے ۔ متبادل توانائی ذرائع پہ تیزی سے کام ہوا ہے ۔ مواصلات کا نظام پوری طرح بحال ہو گیا ہے ، جہاز بھی اڑنا شروع ہو گئے ہیں، لوگوں کو کھانا بھی مل رہا ہے ، مگر ہر شے گراں ہے اور سب سے خوش حال شخص وہ خیال کیا جاتا ہے جو خوراک اور توانائی کی اپنی ضروریات خود پوری کر سکے ۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                           ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول