صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
شہداب
رؤف خیر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
حمدیہ
آپ اپنے کو ٹٹولا تو یہ قصّہ دیکھا
ایک اِک حِس پہ مکمل ترا قبضہ دیکھا
کوئی پردہ نہ علاقہ ہے نہ حد اس کے لئے
چشمِ بینا نے عجب دیکھنے والا دیکھا
سُننے والا ہے سدا اوّل و آخر تو ہی
سُننے والا نہ کوئی تیرے علاوہ دیکھا
چار سو پھیلی ہوئی ہے تو ہے خو شبو تیری
چار سو چھا یا ہو ا تیرا سراپا دیکھا
ذائقہ تیرا کبھی تیرے نمک خواروں سے
چھوٹتا ہی نہیں چسکا ہی کچھ ایسا دیکھا
کون ہے تیرے سوا ہاتھ پکڑنے والا
دستگیر ی کو ہمیشہ تجھے آتا دیکھا
تو کوئی روپ نہ بہروپ کوئی رکھتا ہے
تو تو وہ ہے کہ ترا باپ نہ بیٹا دیکھا
خیرؔ ہر دور میں معیارِ حقیقت ہے جہاں
شر پسندوں کا وہیں رنگ بھی اڑتا دیکھا
٭٭
جو تیرے نام نہیں وہ مری عبادت کیا
تجھے نہ دیکھ سکوں تو مری بصارت کیا
میں ایک خشت سہی جذب ہوں ترے اندر
مرے وجود سے ہٹ کر تری عمارت کیا
قلم ہیں ہاتھ تو حرفِ ہزار معنی ہم
رہے گی اب تری دیوار بے عبادت کیا
مہاجرین سے انصار خوش نہیں ہوتے
تو پھر کہا کی یہ ہجرت برا ہے بھارت کیا
عذاب ہو گئیں راتیں خراب ہو گئے دن
ترے بغیر کوئی خواب کیا بشارت کیا
تباہ ہو گئے خیمے چراغ ہو گئے گل
ہوا کرے گی بھلا اور اب شرارت کیا
رگوں میں خون اچھلتا رہے تو بہتر ہے
یہ رکھ رکھاؤ پس اندازیِِ حرارت کیا
خوشی یہ ہے کہ تری دسترس میں ہوں یوں بھی
مری اڑان ہی کتنی مری جسارت کیا
اُسے خرید لیا خود کو بیچ کر ہم نے
ہے او ر اس سے زیادہ بڑی تجارت کیا
رہیں گے ہم کسی صورت نہیں کہیں نہ کہیں
کر ے گی خیرؔیہ مٹی ہمیں اکارت کیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭