صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
شاہ است حسین۔۔۔
انتخاب و تدوین: محمد وارث
مراثی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
محمد علی جوہر
بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا
ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا
روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا
جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے
سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا
مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا
جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز
اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا(احمد ندیم قاسمی)
لب پر شہدا کے تذکرے ہیں
لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں
جن پہ گزری ہے ان سے پوچھو
ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں
میدان کا دل دہک رہا ہے
دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں
کرنیں ہیں کہ بڑھ رہے ہیں نیزے
جھونکے ہیں کہ شعلے چل رہے ہیں
پانی نہ ملا تو آنسوؤں سے
چُلو بچوں کے بھر دیئے ہیں
آثار جوان بھائیوں کے
بہنوں نے زمیں سے چن لیے ہیں
بیٹوں کے کٹے پھٹے ہوئے جسم
ماؤں نے ردا میں بھر لیے ہیں
یہ لوگ اصولِ حق کی خاطر
سر دیتے ہیں، جان بیچتے ہیں
میدان سے آ رہی ہے آواز
جیسے شبّیر بولتے ہیں
جیسے غنچے چٹک رہے ہیں
جیسے کہسار گونجتے ہیں
"ہم نے جنہیں سر بلندیاں دیں"
سر کاٹتے کیسے لگ رہے ہیں
ہیں یہ رگِ نبی کے قطرے
جو ریت میں جذب ہو رہے ہیں
دیکھو اے ساکنانِ عالم
یوں کشتِ حیات سینچتے ہیں
***