صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


صحرا میں تتلی

محمد احمد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

غزلیں

یوں تو کوئی دوش نہیں تھا کشتی کا ، پتواروں کا

ہم نے خود ہی دیکھ لیا تھا ایک سراب کناروں کا


جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں

وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیواروں کا


تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا

گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا


سُرخ گلابوں کی رنگت بھی اچھی ہے پر سوچتا ہوں

قوس و قزح سی اُس کی آنکھیں ، رنگِ حیا  رخساروں کا


کاش سروں کی بھی قیمت ہو دستاروں کے میلے میں

کاش وفا بھی جنسِ گراں ہو طور تِرے بازاروں کا


دھوکہ دینے والی آنکھیں ، دھوکہ کھا بھی لیتی ہیں

راکھ اُڑا کے دیکھ تو لیتے رنگ ہے کیا انگاروں کا


من میں غم کے پھول کھلیں تو لفظ مہکنے لگتے ہیں

دل آنگن بھی دیکھا ہوتا ، تم نے خوش گُفتاروں کا


بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے

ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا


ایسا تھا کہ آنچل بن کے دھرتی کو سُکھ دینا تھا

ورنہ امبر بھی کیا کرتا ، سورج ، چاند ، ستاروں کا


بس یادوں کی کو مل رُت میں عمر تمام گزر جائے

ورنہ احمدؔ ہجر کا موسم ، موسم ہے آزاروں کا

٭٭٭



مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت

واں ناز سے باندھی گئی دستارِ فضیلت


میں سادہ روش بات نہ سمجھا سکا اُن کو

حائل تھی کہیں بیچ میں دیوارِ فضیلت


کردار ہی جب اُس کے موافق نہ اگر ہو

کس کام کی ہے آپ کی گفتارِ فضیلت


آؤ کہ گلی کوچوں میں بیٹھیں، کریں باتیں

دربارِ فضیلت میں ہے آزارِ فضیلت


اب صوفی و مُلا بھی ہیں بازار کی رونق

اب سجنے لگے جا بجا بازارِ فضیلت


آیا ہے عجب زہد فروشی کا زمانہ

رائج ہوئے ہیں درہم و دینارِ فضیلت


آنکھوں میں ریا، ہونٹوں پہ مسکان سجائے

ملتے ہیں کئی ایک اداکارِ فضیلت


بس علم و حلم، عجز و محبت ہو جس کے پاس

گر ہے کوئی تو وہ ہے سزاوارِ فضیلت


احمدؔ وہ اگر رمزِ سخن پا نہیں سکتے

ہوتے ہیں عبث آپ گناہگارِ فضیلت

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول