صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سیرت النبی میں نرمی اور رواداری

نا معلوم

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

قرآن مجید میں رواداری کے نمو نے

متعدد آیات میں اس بات کا ذ کر مو جود ہے :

پہلی آیت: فَبِمَا رحمۃ مِنَ اللہِ لِنتَ لَھُم وَلَو کُنتَ فَطّاًغَلِیظَ القَلبِ لَانُفَضُّوا مِن حَولِکَ فَاعفُ عَنھُم وَاستَغفِر لَھُم وَشَاوِرھُم فِی الامرِ فَاِذَاعَزَمتَ فَتَوَکّل عَلَی اللہِ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ المُتَوَکِّلِینَ: (تو اے رسو ل!یہ بھی)خدا کی ایک مہر بانی ہے کہ تم (سا)نرم دل (سر دار)ان کو ملا اور تم اگر بد مزا ج اور سخت دل ہو تے تب تو یہ لوگ (خدا جا نے کب کے )تمھارے گرد سے تتر بتر ہو گئے ہو تے پس( اب بھی) تم ان سے در گذر کرو اور ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگو اور ان سے کام کا ج میں مشورہ کر لیا کرو(مگر)اس پر بھی جب کسی کام کو ٹھان لو تو خدا ہی پر بھرو سہر کھو۔جو لو گ خدا پر بھرو سہ رکھتے ہیں خدا ان کو ضرور دو ست رکھتا ہے۔ (آل عمران:۱۵۹)

اس آیت میں اعمال و اخلاق میں رواداری کے متعدد عنا صر جمع ہیں ان میں سے ہر ایک پر نہایت توجہ اور غور و فکر کرنے کی ضرور تھے یہ سارے نکات قا بل تحقیق ہیں :

۱۔لوگوں کے سا تھ گزر بسر کر نے میں گفتار و کر دار میں نرمی ، دو سری آیات کی طرح اس آیت میں جو نکتہ قا بل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس میں نرمی کی خصوصیت جمع ہے ، نرم خو ئی کی تشویق و تر غیب کی گئی ہے اور اس کی ضد یعنی سختی و سنگد لی سے روکا گیا ہے ، نرم خو ئی کے مقابلہ میں جو دو(۲) چیزیں ہیں ان میں سے صرف ایک ہی چیز پر اکتفا نہ کی اور دونوں مفہوم یعنی درشت خوئی اور سنگد لی(جو اندرونی غصے اور سختی کا باعث ہو تی ہے )کو بیان کیا ہے ایسا طریقہ یعنی کسی چیز کا حکم دینا اور اس کی ضد سے رو کنا ایک ایسا قرآنی طریقہ ہے جس کے بارے میں اسی مقالہ میں اسلامی احکام کے خصوصیات کی بحث میں بیان آنے والا ہے۔

۲۔عمل کے نتیجہ کو اس کے بر عکس نتائج کے سا تھ بیان کیا ہے یعنی لوگوں کا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اطراف سے پرا کندہ و منتشر ہو نے کو بیان کیا ہے اس کا بر عکس یہ ہے کہ لوگوں کا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پا س جمع ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی با توں کا سننا اسی وقت ممکن ہو گا جب آ پ کے مزاج میں نرمی ہو۔

۳۔اگر لوگوں سے کو ئی غلطی ہو جائے وہ لو گ لغزش کر جائیں تو انہیں معاف کر دینے کا حکم دیا گیا ہے اسی لئے مغفرت و بخشش کو حسن معاشرت کے اسباب و عوا مل میں شمار کیا گیا ہے اور اسے رواداری کا سبب بتا یا گیا ہے۔

۴۔آیت میں جو مغفرت و بخشش کی تعبیر آ ئی ہے اس سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ عوام قصوروار ہیں ان سے کو تا ہی اور غلطی ہوتی ہے۔ ان با توں سے یہی پتہ چلتا ہے کہ خطا کار کے ساتھ اچھا بر تاؤ کر نا چاہئے۔

۵۔جن لوگوں نے خطا کی ہے ان سے مشورہ کر نے میں اعلیٰ درجے کی خو ش رفتاری کا اعلان ہے ، برا ئی کا جواب نیکی سے دیا جا رہا ہے کیونکہ رائے اور مشورہ ،صلح و صفائی کی علا متھے اور اس بات کی نشانی ہے کہ اندرونی و بیرونی طور پر کو ئی عداوت و دشمنی نہیں ہے جیسا کہ دو(۲)دوستوں کے در میان یہ خصوصیت پا ئی جا تی ہے ،مشورہ، طرفین کے در میان برا دری و دوستی اور اعتماد کی حکایت کر تا ہے نیز اس بات پر دلا لت کر تا ہے کہ سارے کینے دشمنیاں اور خصو متیں اب ختم ہو چکی ہیں۔

۶۔آیت کے آخری حصہ میں نرم خوئی ،بخشش و مغفرت اور رائے و مشورے کے تمام مراحل میں خدا پر تو کل کا حکم دیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ اے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !اگر آپ نے خدا پر تو کل کیا تو نہ صرف یہ کہ آ پ کا ذراسابھی نقصان نہ ہو گا بلکہ توکل کر نے والوں کو خدا دو ست رکھتا ہے۔ بنا بر ایں آیت کا سیاق ان تمام اہم عنا صر و خصوصیات کے سا تھ عوام کے سا تھ نہایت نرمی اور رواداری سے پیش آنے پر دلا لت کرتا ہے۔

دو سری آیت: خُذِ العَفو و امُر بِالعُرفِ وَ اَعرِض عَنِ الجَاھِلِینَ (اے رسو ل!)تم درگزر کرنا اختیار کرو اور اچھے کام کا حکم دو اور جا ہلوں کی طرف سے منھ پھیر لو۔(اعراف:۱۹۹)

خداوند عالم نے اس آیت میں بھی تین (۳)عملی خصوصیات کو بیان فر مایا ہے ان میں سے ہر ایک خصوصیت، حسن خلق اور رواداری کی مستلزم ہے :

۱۔اخلاق اور لوگوں کی ضروریات سے زائد اموال کے سلسلہ میں عفو و بخشش اور گذشت کا حکم دیا گیا ہے ، یہ نکتہ ایک دوسری آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے :وَ یَسالُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ قُلِ العَفوَ:اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! لوگ تم سے یہ پو چھتے ہیں کہ کیا انفاق کریں ؟ تم کہہ دو کہ اپنی سا لا نہ ضروریات سے زائد چیزوں کا انفاق کریں۔ (بقرہ :۲۱۹)اس آیت کی تفسیر میں سالانہ اخراجات کے علا وہ نیز اسراف و امساک کے در میان جو مصرف واستعمال کا معیار ہے اس کو پیش نظر  رکھتے ہوئے بیان کیا گیا ہے بہر حال اس میں جو لفظ "العفو"آیا ہے وہ لین دین میں آسانی وسہو لت پر دلالت کرتا ہے۔

۲۔عرف میں جو امور نیک ہیں ان کا حکم دیا گیا ہے یعنی عوام کی جو عادتیں پسندیدہ ہیں اور وہ عقلی و شرعی طور پر نیک شمار ہوتی ہیں اور جو چیزیں عوام کے در میان متعارف ہیں۔

۳۔نا دان افراد سے رو گردانی یعنی اگر چہ جہا لت و نا دانی اور بے وقوفی یہ سب ایسے گنا ہ ہیں جن پر سزا ملے گی لیکن اس کے با وجود بھی آپ انہیں معذور سمجھیں انہیں معاف کر دیں ان کی سفا ہت و جہا لت کا جواب حلم و بردباری کے ساتھ دیں۔

تیسری آیت:وَلاتَستوِی الحَسََنۃُ وَلَا السَّیِئَۃُ اِدفَع بِالَّتِی ہی اَحسَن فَاِذَا لَّذِی بَینَکَ وَ بَیَنہ عَدَاوَۃٌ کَاَنّۃ وَلِیُ حَمِیمٌ ،وَمَا یَُلقَّاھَا اِلَّا الَّذِیَن صَبَرُوا وَ مَا یُلَقَّاھَا اِلَّا ذُوحَظِِّ عَظِیمِِ:اچھائی اور برائی یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتی ہیں بہترین طریقہ سے دوسرو ں کو دفع کرو تا کہ تمھارے اور جس شخص کے در میان دشمنی ہے وہ ایک مہر بان دو ست بن جائے ، اور اس چیز کو جو لوگ صبر کر تے ہیں اور وہ عظیم بہر ہ رکھتے ہیں ان کے علا وہ کو ئی بھی قبول نہیں کرسکتا۔(فصلت : ۳۴، ۳۵)

ان دونوں آیتوں میں بھی برائی اور برے لوگوں کے ساتھ مدارا اور رواداری اور جو کچھ ان دونوں کا لازمہ ہے وہ ساری باتیں جمع ہیں :

۱۔ایک بات جس کو عقلاء عالم نے تسلیم کیا ہے اسی کو یاد دلا تے ہوئے کلام کا آغا ز ہوا ہے اور وہ یہ ہے : نیکی کے ساتھ برائی یہ دونوں چیزیں برائی اور اچھا ئی میں برا بر نہیں ہیں نیز لین دین اور سزا و اجر میں بھی برا بر نہیں ہیں کیونکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ برائی کا بدلہ برا ئی ہے اور نیکی کا بدلہ نیکی ہے اس کا بر عکس نہیں ہے۔

۲۔اس مسلم اصل کو تسلیم کر تے ہوئے اس نکتہ پر تاکید کی گئی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (اور کلام الٰہی کے ہر مخاطب)کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ الٹے بد لے دیں برا ئی کا بدلہ مزید نیکی سے دیں ( نہ صرف نیکی سے بلکہ بہتر نیکی سے دیں )عظیم نیکی اور سب سے بلند نیکی سے اس کا جواب دیں یہ بات برے افراد کے سلسلہ میں نرمی اور رواداری کو عروج پرلے جاتی ہے۔ اور اس بڑھ کر نیکی اور حسن خلق کیا ہوسکتاہے۔

۳۔پھر آخر میں اس کام کے نتیجہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جب دشمن کا سا منا ہو تو وہ یکا یک مہر بان دو ست میں بدل سکتا ہے لیکن آیت کا سیاق اس نتیجہ کو بیان کر نے میں بھی نہایت بلاغت پر مشتمل ہے کیونکہ حرف "اِذَا"(یعنی یکا یک)فجائیہ سے آغاز ہو تا ہے کیونکہ اس نکتہ کا اعلان کیا جار ہا ہے کہ یکا یک ایسی بات واقع ہو سکتی ہے کہ کسی کو بھی اس کی توقع نہ رہی ہو اور اس حا لت میں بھی آیت میں یہ ار شاد نہیں ہے کہ تمھارا دشمن تمہارا دوست بن جائے گا بلکہ یوں ارشاد ہو تا ہے :وہ شخص تمھارے اور جس کے در میان تھوڑی سی دشمنی ہے وہ ایک مہر بان دو ست بن جائے گا۔

بنا بر ایں ان کے اور ان کے دشمن کے در میان جو دشمنی تھی اسے دو ستی اور وہ بھی ایسی دو ستی میں بدل دیا جو دو مہربان دوستوں کی دوستی ہے اور یہ دو ستی و محبت اور مہربانی کا بہت عظیم درجہ ہے۔ خدا نے پہلی آیت اور دوسری آیت میں بھی یہ بتا دیا کہ یہ بدلہ صرف ان لوگوں کو دیا جائے گا جو صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں ، برائی پراور برے لوگوں سے غصہ نہیں ہو تے بلکہ ان کی برا ئیوں کو بردا شت کرتے ہیں ، برد باری سے کام لیتے ہیں اور اپنے او پر کنٹرول کرتے ہیں۔

دو سری آیت اسی پر اکتفا نہیں کر تی چنانچہ وہ اپنے نفس پر قا بو پا نے کی خصوصیت کے علا وہ مزید یہ بتا تی ہے کہ صرف وہی لوگ اس نفسیاتی جنگ کو برداشت کر نے کا حوصلہ رکھتے ہیں جو بردباری کے عظیم درجہ پر فائز ہوں اور وہ لو گ اندرونی لحاظ سے بھی عظیم قدرت و توا نا ئی رکھتے ہوں اور اپنے جذبات پر مکمل طور سے غالب ہوں بہرحال ان دونوں آیتوں کی طرح کچھ دوسری آیات بھی ہیں جن میں ارشاد ہوتا ہے :

۱۔وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابتِغَاءَ وَجہِ رَبِّھِم وَ اَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَ اََنفَقُوا مِمَّا رَزَقنَاھُم سِرّاً وَّعَلَانِیَۃً وَّ یَدرَءُونَ بِالحَسَنَۃِ السَّیِّۃَ اَولٰئکَ لَھُم عُقبَی الدَّارِ:(یہ)وہ لو گ ہیں جو اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کر نے کی غرض سے (جو مصیبت ان پر پڑی)اسے جھیل گئے اور پا بند ی سے نما ز ادا کی اور جو کچھ ہم نے انہیں روزی دی تھی اس میں سے چھپا کر اور دکھلا کر(خدا کی را ہ میں )خرچ کیا اور یہ لو گ برائی کو بھی بھلائی سے دفع کر تے ہیں یہی لو گ ہیں جن کے لئے آخرت کی خو بی مخصوص ہے۔ (رعد:۲۲)

یہ ان مومنین کے صفات ہیں جو ایمان کے کا مل درجہ پر فائز ہیں کیونکہ برا ئیوں کا جواب نیکی سے دینا یہ پرہیزگار  افراد کے عظیم فضائل میں سے ہے۔

اسی آیت میں اس حقیقت کا صبر و شکیبائی اور طلب رضائے الٰہی، نما ز کی بر قراری اور خدا کی عطا کی ہو ئی روزی کا کھلم کھلا اور پوشیدہ طور پر بخشنا ان سارے امور کے سا تھ مقابلہ کیا گیا ہے ، اس آیت میں بھی اور اسی سور ہ کی چوبیسویں آیت میں بھی اس بات کی تکرار ہے کہ ایسے ہی افراد کا انجام نیک ہو گا۔

۲۔اُولٰئِکَ یُوتَونَ اَجرَھُم مَرَّتَینِ بِما صبرُوا و یدُرءُون بِالحسنۃِ السّیِّئۃ و مِمّا رزقناھُم یُنفِقُون:یہ وہ لو گ ہیں جنہیں (ان کے اعمال خیر کی)دوہری جزا دی جائے گی چونکہ ان لوگوں نے صبر کیا اور بدی کو نیکی سے دفع کر تے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں )خرچ کر تے ہیں۔ (قصص:۵۴)

یہ آیت اور اس سے پہلی والی آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان کے کچھ اوصاف بیان کئے گئے ہیں یہاں تک کہ ار شاد ہوتا ہے :"انھوں نے جو صبر کیا  اور تحمل سے کام لیا ہے انہیں دوہرا اجر دیا جائے گا وہ لوگ برائی کو نیکی کے ذریعہ دور کرتے ہیں۔ "

انہیں دوہرا اجر دینے کی علت دو(۲) چیزیں ہیں اور دونوں کا تعلق نرمی اور رواداری سے ہے :

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول