صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


ہم نے سیکھا نہیں ہے ہارنا

ون اردو رائٹرس سوسائٹی

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

۱

بیلا کے ہاتھوں کی لرزش اور پیروں کی لڑکھڑاہٹ سے اس کا خوف اور بےبسی صاف ظاہر ہو رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کمرے کی بے جان چیزیں بھی اس کی تکلیف کو محسوس کر رہی ہیں۔

" کیوں نہ بابا سے بات کئے بنا ہی واپس پلٹ جاؤں"۔

اسے یقین تھا کہ ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اپنا مقدمہ ہار جائے گی، بنا دلائل دئے اور لئے۔ بہتر تھا کہ وہ اپنی ہار مان لے اور اپنے اداس کمرے میں واپس لوٹ جائے۔ کوئی نئ الجھن اپنے دامن میں سمیٹے بنا کہ یہی اس کا مقدر تھا۔

""کاش امی زندہ ہوتیں تو مجھے اکیلے اتنے غم نہ اٹھانے پڑتے"۔

بے بسی کے احساس سے اس کی آنکھیں بھر آئیں، ابھی وہ ایک سال کی تھی جب اس کی امی اللہ میاں کے پاس چلی گئیں،آیا اسے روز بہلاتی رہی۔ امی کے آنے کی جھوٹی کہانیاں سناتی رہی۔ امی کو نہ آنا تھا نہ آئیں مگر اسے بذات خود اچھی طرح یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ اب اس کی امی کبھی واپس نہیں آئیں گی۔

اسےان کی شکل بھی یاد نہیں تھی بس سہیلیوں سے ان کی امیوں کی باتیں سن کر اس عظیم ہستی کی اہمیت کا احساس ہوتا تھا۔

اس نے بی اے میں پورے صوبے میں ٹاپ کیا تھا اور اب پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی تھی مگر اچھی طرح جانتی تھی بابا کبھی نہیں مانیں گے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے سخت خلاف تھے۔یونیورسٹی کا فارم اس کے ٓانسوؤں سے بھیگا جا رہا تھا مگر وہ خود میں اتنی ہمت نہیں پاتی تھی کہ وہ اتنے جاہ و جلال والے بابا کا نہ صرف سامنا کرتی بلکہ ان سے ان کی مرضی کے خلاف کچھ مانگنے کی جرات بھی کر لیتی۔

وہ دو بار بابا کے کمرے کے دروازے سے لوٹ آئی تھی اور اب تیسری بار پھر دروازے پر کھڑی تھی۔ لیکن خود میں اندر جانے کی ہمت نہیں جمع کر پا رہی تھی۔ وہ پھر اپنے کمرے میں لوٹ آئی اور بستر پر اوندھی لیٹ کر نہ جانے کتنی دیر تک آنسو بہاتی رہی۔ پھر ذہن میں ایک خیال آنے پر اٹھی اور ایک کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول