صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سائنس: خدا کی نشانیاں اور ہماری میراث
عظیم احمد
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
قرآن مجید تقریباً پندرہ سو سال پہلے نازل ہوا۔ اس کے نزول کا مقصد موجودہ عارضی زندگی میں انسان کی بحیثیت فرد اور معاشرہ رہنمائی کرنا ہے۔ انسان کو چونکہ ہمیشہ ہی سے ہدایت کی ضرورت رہی ہے اور رہے گی، اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے اس آخری پیغام کو ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ کر لیا ہے:
’’بے شک ہم نے ہی اس پیغام کو نازل کیا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘ (الحجر15:9)
اگرچہ قرآن مجید کے پڑھنے والے کو اس میں متعدد ایسی آیات ملیں گی جو کسی نہ کسی طرح سائنسی مظاہر سے متعلق ہیں، تاہم ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید اصلاً کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد سائنس کی تعلیم ہے۔ اس کا بنیادی پیغام آیندہ آنے والی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی کی یاددہانی اور منادی ہے۔ وہ اس حقیقت کی جانب مختلف اسالیب میں توجہ دلاتا ہے۔ اسی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے وہ انسان کو خود اس کے اپنے اندر موجود نشانیوں اور کائنات میں پھیلے ہوئے مختلف مظاہر پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ان سائنسی مظاہر کے متعلق قرآن مجید کا بیان مختصر اور جامع ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ ان اشاروں کو مشعل راہ بنا کر تحقیق کریں اور حقائق کی تہ تک پہنچیں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے آخرت کے متعلق موروثی عقیدے کو یقین میں بدلنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، بلکہ علم اور ایجادات کی دنیا میں بھی انھیں سب سے ممتاز بنا سکتا ہے۔
ابتداً امت مسلمہ نے قرآن کی اسی ہدایت پر عمل کیا اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ جدید سائنسی علوم کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ انہی سے اہل یورپ نے یہ علم سیکھا (جیسا کہ آپ کو اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوگا)، اسے آگے بڑھاتے چلے گئے اور اس طرح وہ دنیا کے لیڈر بن گئے۔
اکیسویں صدی میں انسانی علم کی سطح بہت بلند ہو چکی ہے۔ جدید سائنس نے ایسے ایسے انکشافات کیے ہیں، جن کے متعلق انسان پہلے تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب تک کے تمام دریافت شدہ مسلمہ حقائق بغیر کسی استثنا کے قرآن مجید میں درج بیانات کے عین مطابق ہیں۔ اسی حقیقت کو مشہور فرنچ سرجن سائنس دان موریس بوکیل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سائنس، قرآن اور بائبل‘‘ میں بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق جدید سائنس نے قرآن مجید کی بیشتر ایسی آیات کو سمجھنا آسان کر دیا ہے جن کی صحیح تشریح سائنسی علوم کی کمی کی وجہ سے پہلے ممکن نہ تھی۔ مثال کے طور پر:
رحم مادر میں بچے کی تخلیق کے مدارج کا علم یعنی ایمبریالوجی (Embryology) جس تفصیل اور صحت کے ساتھ ہمیں اب حاصل ہے، وہ پہلے ممکن نہ تھا، کیونکہ رحم مادر کے اندر کا عمل فلمانے والے خوردبینی کیمرے ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کیمروں کی مدد سے جو حقائق سامنے آ رہے ہیں، وہ قرآنی بیانات کے عین مطابق ہیں۔ دنیا کے مشہور ترین ایمبیریالوجسٹ ڈاکٹر کیتھ مور کے مطابق قرآن مجید اس علم یعنی ایمبریالوجی میں وقت سے بہت آگے ہے۔
قرآن مجید ایمبریو کے دوسرے مرحلے کو ’’علقہ‘‘ یعنی جونک کہتا ہے۔ اس بیان کی حقیقت پہلے کسی بھی انسان کی سمجھ سے باہر تھی۔ دو مسلمان ڈاکٹروں نے اس علم کے ماہر ترین انسان ڈاکٹر کیتھ مور سے رابطہ کیا اور انھیں تحقیق پر آمادہ کیا، تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔ تحقیق کے نتیجے میں ڈاکٹر کیتھ مور پر حیرت ناک انکشاف ہوا کہ واقعی حمل کے تقریباً چوتھے ہفتے میں ایمبریو کی شکل ہو بہو جونک جیسی ہوتی ہے اور وہ جونک ہی کی طرح رحم مادر کی دیوار سے چپک کر ماں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔ ڈاکٹر مور نے کینیڈین ٹیلی ویڑن پر انٹرویو میں اپنی ریسرچ کی تفصیل بتائی اور کہا:
’’آج سے پہلے کسی انسان کو اس حقیقت کا علم ہونا قطعاً ناممکن ہے کیونکہ خوردبینی کیمرے ایجاد ہی اب ہوئے ہیں۔ چنانچہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس کا علم ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ چودہ سو سال پرانی کتاب میں اس کے ذکر کی صرف اور صرف ایک ہی توجیہ ہو سکتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر اس ہستی کی وحی نازل ہوئی ہے جس نے ہر شے کو تخلیق کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر مور نے اپنی کتاب ’’تعمیر انسان‘‘ (مطبوعہ 1982ء) کے تیسرے ایڈیشن میں ’’علقہ‘‘ کا مرحلہ بیان کیا ہے اور جونک اور علقہ کی تصاویر ساتھ ساتھ دی ہیں جنھیں دیکھ کر پہچاننا محال ہے کہ ان میں ایمبریو کون سا ہے اور جونک کون سی ہے۔ دیکھیے قرآن مجید دوسری زندگی پر دلیل دیتے ہوئے کس خوبی سے ایمبریو کے مراحل بیان کر رہا ہے:
’’اے لوگو! اگر تم دوبارہ جی اٹھنے کے باب میں شبہ میں ہو تو دیکھو کہ ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر پانی کے ایک قطرے سے، پھر جونک سے، پھر لوتھڑے سے، (جس میں سے) کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کر دیں اور ہم رحموں میں ٹھیرا دیتے ہیں، جو چاہتے ہیں اور ایک مدت معین کے لیے۔ پھر ہم تم کو ایک بچے کی شکل میں برآمد کرتے ہیں، پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے بعض پہلے مر جاتے ہیں اور بعض بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں، حتی کہ وہ کچھ جاننے کے بعد کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘ (الحج22:5)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا، ہم نے پانی کی ایک بوند کو جونک کی شکل میں ایک محفوظ مستقر میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو جونک کی شکل دی، پھر جونک کو گوشت کا لوتھڑا بنایا۔ پس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں۔ پس بڑا ہی با برکت ہے، اللہ بہترین پیدا کرنے والا، پھر ان سب کے بعد لازماً مرنا ہے۔ پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔‘‘ (المومنون 23:12-16)
’’پڑھ اپنے مالک کے نام سے جس نے تخلیق کیا انسان کو ایک جونک کی سی چیز سے۔‘‘ (العلق96:1-2)
قرآن مجید ایک ایسے زمانے میں نازل ہوا جب انسان کی افزائش نسل سے متعلق معلومات نہایت محدود تھیں۔ قرون وسطی میں اور جدید زمانے تک بھی اس موضوع کو ہر قسم کی بے سروپا کہانیاں گھیرے ہوئے تھیں۔ اس ضمن میں صحیح معلومات کا آغاز خوردبین کی ایجاد کے بعد شروع ہوا۔ لہذا ایمبریالوجی کے بنیادی تصورات سے متعلق معلومات نزول قرآن اور اس کے بعد کی صدیوں تک نا معلوم تھیں، مگر حیرت انگیز طور پر قرآن افزائش نسل کے مراحل کو نہ صرف واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے، بلکہ کسی ایک مقام پر بھی ان کے غیر صحیح ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ قرآن میں ان مدارج سے متعلق ہر بات آسان لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے، جو آسانی سے انسان کی سمجھ میں آنے والی ہے اور صدیوں بعد دریافت ہونے والے حقائق سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ مثلاً بار آوری کا عمل رقیق مادے کی نہایت قلیل مقدار سے انجام پانا، مرد کے مادہ منویہ کا بچے کی جنس کا ذمہ دار ہونا، بار آور شدہ بیضہ کا استقرار تین پردوں کے اندر ہونا اور رحم کے اندر ایمبریو کا ارتقا۔ ڈاکٹر موریس بوکیل کے بقول پندرہ سو سال پرانی کتاب کے ان بیانات اور جدید سائنس سے حاصل شدہ ان حقائق میں مطابقت کے نتیجے میں آدمی مکمل طور پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
٭٭٭