صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
ساتوں رنگ
ناصر کاظمی
برگِ نے ، دیوان اور مختلف اشعار کا انتخاب
تدوین و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ختم ہوا تاروں کا راگ
جاگ مسافر اب تو جاگ
دھوپ کی جلتی تانوں سے
دشتِ فلک میں لگ گئ آگ
دن کا سنہرا نغمہ سن کر
ابلقِ شب نے موڑی باگ
کلیاں جھلسی جاتی ہیں
سورج پھینک رہا ہے آگ
یہ نگری اندھیاری ہے
اس نگری سے جلدی بھاگ
***
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
حُسن بھی حُسن ہے محتاضِ نظر ہے جب تک
شعلۂ عشق چراغِ تہِ داماں ہی سہی
کیا خبر خاک ہی سے کوئ کرن پھوٹ پڑے
ذوقِ آوارگئ دشت و بیاباں ہی سہی
پردۂ گُل ہی سے شاید کوئ آواز آۓ
فرصتِ سیر و تماشاۓ بہاراں ہی سہی
****
ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
بہاریں لے کے آۓ تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ھستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں
کہاں تک لاۓ ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
جاگ مسافر اب تو جاگ
دھوپ کی جلتی تانوں سے
دشتِ فلک میں لگ گئ آگ
دن کا سنہرا نغمہ سن کر
ابلقِ شب نے موڑی باگ
کلیاں جھلسی جاتی ہیں
سورج پھینک رہا ہے آگ
یہ نگری اندھیاری ہے
اس نگری سے جلدی بھاگ
***
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
حُسن بھی حُسن ہے محتاضِ نظر ہے جب تک
شعلۂ عشق چراغِ تہِ داماں ہی سہی
کیا خبر خاک ہی سے کوئ کرن پھوٹ پڑے
ذوقِ آوارگئ دشت و بیاباں ہی سہی
پردۂ گُل ہی سے شاید کوئ آواز آۓ
فرصتِ سیر و تماشاۓ بہاراں ہی سہی
****
ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
بہاریں لے کے آۓ تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ھستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں
کہاں تک لاۓ ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
***