صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سات آسماں
صابر ظفر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بالتا کوئی نہیں ہے
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے
کھُلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن
گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے
کسی سے آشنا ایسا ہوا ہوں
مجھے پہچانتا کوئی نہیں ہے
٭٭٭
کھدائی کو کھنڈر کوئی نہیں ہے
اب اِس مٹی میں زر کوئی نہیں ہے
خیالوں میں یہ کس کی دستکیں ہیں
اگر بیرونِ در کوئی نہیں کوئی نہیں ہے
وہاں لوگوں کے کیا دُکھ درد ہونگے
جہاں اب نوحہ گر کوئی نہیں ہے
کسے ہے بات کہنے کا سلیقہ
اگر چہ بے ہنر کوئی نہیں ہے
جِدھر چاہو نکل جاؤ سفر کو
فصیلِ بحر و بر کوئی نہیں ہے
میں کیوں اب گھر کی تختی پر نہ لکھ دوں
یہاں صابر ظفر کوئی نہیں ہے
٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭