صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سرشار۔ فن اور شخصیت
ثمیر کبیر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
فسانۂ آزاد
یہ سرشار کا سب سے اہم مشہور اور شاہکار ناول ہے۔ اس کی تصویر لکھنؤ کے سماجی پس منظر میں ابھرتی ہیں۔ وہ ان تصویروں میں رنگ بھرنے کے لئے لکھنؤ کی سماجی زندگی کی رنگینیوں سے کام لیتے ہیں۔ لکھنؤ سے شدید وابستگی ہی فسانۂ آزاد کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ سماجی زندگی کے ہمہ گیر پہلوؤں سے اتنا گہرا ربط و ضبط اور رشتہ و تعلق اردو کے کسی اور ناول میں کم ملتا ہے اور یہی خصوصیت اس کو اردو ناولوں کے بجائے ’’جدید داستان‘‘ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ناول کا ایک اہم عنصر پلاٹ ہے اس کے بغیر داستان اور ناول میں ہیئت کے لحاظ سے کچھ فرق نہیں رہ جاتا۔ ’’فسانۂ آزاد‘‘ کا ایک بڑا نقص اس کا پلاٹ ہی ہے۔ یہ قصہ ڈھائی تین ہزار صفحات پر پھیلا ہوا ہے اور اسی وجہ سے پلاٹ کا رشتہ کہیں گم ہو جاتا ہے۔ اس کی بنیاد ایک حد درجہ معمولی قصے پر قائم ہے۔
قصہ یوں ہے کہ ایک جوان رعنا آزاد ایک پڑھی لکھی اور اونچے خاندان کی خاتون حسن آرا کی جھلک دیکھتے ہی اس پر ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتے ہیں۔ حسن آرا بیگم شادی کے لیے یہ شرط لگاتی ہیں کہ وہ جنگ روم وروس میں شریک ہوں۔ آزاد یہ شرط بوجہ احسن پوری کرتے ہیں۔ اور حسن آرا اپنا وعدہ پورا کرتی ہیں۔ بقول علی عباس حسینی۔
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
بات دراصل یہ ہے کہ سرشار کے ذہن میں کوئی منظم پلاٹ نہیں تھا۔ تخلیقی محرکات کے زیر اثر انھوں نے داستانوں کی طرز کا ایک قصہ لیا اور اس کی تعمیر میں گذشتہ داستانوں اور قصوں کا وہ طرز اپنایا جس سے قاری کے ذہن میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہوا، یہ پھر کیا ہوا، ہی فورسٹر کے خیال میں کہانی کے لیے ضروری ہے۔ اس نے بالکل ٹھیک لکھا ہے۔ :
’’کوئی پلاٹ غار میں رہنے والے آدمیوں پر مشتمل سامعین، جابر بادشاہ یا ان کے جدید جانشین فلم بیں عوام، کے سامنے نہیں سنایا جا سکتا۔ انھیں اور پھر کیا ہوا۔ کی مسلسل رٹ کے ذریعے صرف بیدار رکھا جا سکتا ہے۔ ان سے صر تجسس حاصل ہو سکتا ہے۔ پلاٹ فہم و ادراک اور یادداشت کا بھی متقاضی ہوتا ہے ‘‘۔
اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ’’فسانۂ آزاد‘‘ کی ساری دل چسپی قصہ گوئی کی تکنیک میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پلاٹ مربوط اور غیر مربوط دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ ’’فسانۂ آزاد‘‘ میں پلاٹ اس قدر مربوط ہے کہ اس کا سراغ پانا دشوار ہو جاتا ہے لیکن ’فسانہ آزاد‘ کی یہی سب سے بڑی کمزوری، اس کی سب سے بڑی خوبی بن گئی ہے۔ پلاٹ سے بے نیازی نے سرشار کے لیے آسان کر دیا کہ وہ لکھنؤ کی سماجی زندگی کو بھرپور انداز میں پیش کر سکیں۔ اور یہ بات بھی بڑی دلچسپ اور اہم ہے کہ سرشار کا مقصد صرف لکھنؤ کی سوسائٹی کی مرقع کشی نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اودھ اخبار کو چلانے کے لیے کچھ دل چسپی کا سامان مہیا کرنا بھی تھا چنانچہ انہوں نے اپنے مخصوص طرز میں قصہ کا آغاز کر دیا۔ ان کے پیش نظر کوئی سوچا سمجھا پلاٹ نہیں تھا وہ قلم برداشتہ لکھتے تھے کیوں کہ اس قصے کو پسند کیا جا رہا تھا اور اخبار کا مالک اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ صالحہ عابد حسین نے بالکل ٹھیک لکھا ہے :
’’سرشار نے یہ ناول اپنے دماغ میں کوئی پلاٹ ترتیب دے کر نہیں لکھا نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلے پورا ناول لکھ لیا جاتا پھر اس پر نظر ثانی کی جاتی۔ اس کی خامیوں، خرابیوں، اس پر نظر ثانی کی جاتی۔ اس کی خامیوں، خرابیوں، اس کی کوتاہیوں، اس کی بھولوں کو دور کر کے اسے چھپوایا جاتا بلکہ روزانہ سرشار ’’اودھ اخبار‘‘ کے لیے جس کے وہ ایڈیٹر بھی تھے۔ اس کا ایک قصہ اور چھپنے کے لیے دے دیتے ‘‘۔
پلاٹ سے یہ بے نیازی اس ناول کی سب سے بڑی خوبی بن گئی اور سرشار کی کوئی دوسری تصنیف اس خوبی کو نہیں پہنچ سکی ہے۔ حالانکہ کامنی، جام سرشار، پی کہاں وغیرہ میں سوچا سمجھا اور مربوط پلاٹ موجود ہے۔ فسانۂ آزاد میں اس کی خامی خوبی میں اس لیے تبدیل ہو گئی ہے کہ سرشار کے ذہن میں ناول کا کوئی واضح نقشہ تھا ہی نہیں اور اودھ اخبار کے لیے روزانہ کچھ نہ کچھ لکھنا لازمی اور ضروری تھا۔ لیکن سرشار ذہین تھے اور سب سے بڑھ کر ان کے مطالعے نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ وہ جانتے تھے کہ داستان گوئی کس طرح کی جاتی ہے۔ علی عباس حسینی لکھتے ہیں :
’’سرشار نے جس طرح رچرڈسن، فلیڈنگ، اسمولٹ اسٹرن، اسکاٹ ڈکسن اور تھیکرے کے ناول بغور پڑھے تھے اسی طرح انھوں نے ڈان کوئی زاٹ، الف لیلہٰ، انوار سہیلی، رامائن، مہابھارت، قصہ نل ودمن، گل بکاولی، داستان امیر حمزہ، مراۃ العروس اور نبات النعش کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ‘‘
سرشار کے اس مطالعے نے انھیں ایک راہ سمجھائی۔ جس پر چل کر وہ اودھ اخبار کے زبردست تقاضوں کو پورا کر سکتے تھے۔ انہوں نے قدیم داستانوں کی طرز پر ایک کردار لیا اور اس کردار کو رابط بنا کر غیر مربوط واقعات میں ایک طرح کا ربط پیدا کر دیا۔ لیکن سرشار کی دقت یہ تھی کہ وہ داستان نویسوں کی طرح خیالی دنیا تخلیق نہیں کر سکتے تھے۔ یہ انیسویوں صدی عیسوی تھی اور وہ خود طلسم کے کارخانہ پر بھروسہ نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ خود اپنے اطراف و اکناف کی زندگی کو پیش کرنا شروع کر دیا۔ سرشار کے لیے یہ بات آسان تھی۔ انھیں زبان اور بیان پر قدرت حاصل تھی ہی اور اس طرح بے بنیاد ہی مواد قبضہ میں آگیا۔ لکھنؤ کی سماجی زندگی کی مرقع کشی سرشار جیسے صاحب قلم کے لیے کیا مشکل تھی۔ وہ اس کے روپ بہروپ کو اچھی طرح پہچانتے تھے اس لیے انھوں نے اس کے بہر بہروپ کی عکاسی کی اور اس طرح سے سرشار کو ایک کبھی نہ ختم ہونے والا مواد ہاتھ آگیا۔ فسانۂ آزاد میں ہر جگہ یہ بات کامل طور پر نمایاں ہے کہ جب سرشار قصہ کو نیا موڑ نہیں دے سکتے ہیں تب انھوں نے لکھنؤ کی زندگی کا کوئی خاکہ پیش کر دیا ہے۔
مخصوص جگہ کی نشان دہی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ بات فسانۂ آزاد کی مکمل ترین صورت میں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں ہم لکھنؤ کی زندگی کی چلتی پھرتی، بولتی چالتی تصویریں ملتی ہیں۔ علی عباس حسینی نے اس خصوصیت کی تعریف اس طرح کی ہے :
’’وہ ہر طبقہ، ہر قوم، ہر ملت و مذہب، ہر پیشے اور حرفے کی آدمی سے کماحقہ واقف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ملائے مسجد سے بھی واقف ہیں اور مجتہد عصر سے بھی۔ وہ بخوبی رمّال سے بھی آگاہ ہیں۔ اور پنڈت اور جیوتشی سے بھی۔ وہ طبیب کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور ڈاکٹر کو بھی، وہ نوابوں کو بھی خوب پہچانتے ہیں اور ان کے لوٹنے والے مصاحبوں کو بھی۔ پتنگ بازوں کا حال ان سے سنیے، افیونیوں اور چانڈو بازوں کی حالت ان سے پوچھئے، شراب نوشی اور مئے آشامی ان کے ہاں ملاحظہ فرمائیے۔ نانکوں اور بنوٹیوں کی کیفیت ان کی کتابوں میں پڑھیے۔ غندے، شہدے، بدمعاش، نیک معاش، فقیر، جوگی، بنیا، نائی، حلوائی، غرض ہر پیشے اور ہر طبیعت کے لوگ آپ کو ان کی کتابوں میں مل جائیں گے ‘‘۔
سرشار ایک خاص پس منظر میں ان تصویروں کو ابھارتے ہیں اور ان کی تمام تر کامیابی کا انحصار اس مخصوص پس منظر کی پیش کش پر ہے اور ان تصویروں کی رنگا رنگی اسی پس منظر میں واضح ہوتی ہے۔
لکھنؤ کی سماجی زندگی کی عکاسی سرشار نے جس چابکدستی سے کی ہے اس کا جواب ملنا مشکل ہے مثلاً فسانۂ آزاد‘‘ کی جلد دوم میں شطرنج کے عنوان سے کئی صفحات لکھ ڈالے ہیں جس سے لکھنؤ کی شطرنج بازی ہمارے سامنے آ جاتی ہے اور ہم شطرنج بازوں کی خاص اصطلاحوں سے واقف ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح عید الضحیٰ میں ایک امیر گھرانے کی عید کی تیاری عید کی مصروفیتیں غرض وہ سب کچھ ہے جو ایک اونچے گھرانے میں ہو سکتا ہے۔ فسانۂ آزاد کے ہر صفحہ پر لکھنؤی سوسائٹی کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ انکی حقیقت نگاری ہر جگہ، ہر مقام پر نمایاں ہے۔ سرعبدالقادر سرشار کی حقیقت نگاری کے بعد بے حد معترف ہیں اور انہوں نے لکھنؤ کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد سرشار کی اس زبردست کامیابی کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے :
’’میں نے خود لکھنؤ کی حقیقی زندگی کا سرشار کے مرقعوں سے مقابلہ کر کے دیکھا اور بلا خوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ لکھنؤ کا کوئی باشندہ، خواہ وہ کاہل و آرام پسند و ثیقہ دار ہویا معمولی بدمعاش، خواہ وہ ٹینگ مارنے والا شتربان ہویا خیالی پلاؤ پکانے والا نفسی، ہر ایک کا نمائندہ اور مرقع پنڈت رتن ناتھ سرشار کی گلیوں میں مل جائے گا۔ ‘‘
سرشار کو لکھنؤ کی اس درجہ متنوع تصویر مکمل انداز میں پیش کرنے میں کامیابی اس لیے ہوئی کہ ان کا ہیرو آزاد ہے جو ہر جگہ جاتا ہے، ہر ایک سے ملتا ہے۔ وہ چانڈو خانہ میں بھی جاتا ہے اور حرم سرا میں بھی، وہ نواب کا مصاحب بھی ہے اور جنگی سپاہی بھی، وہ افیونیوں کا دوست بھی ہے اور شرابیوں کا شناسا بھی۔ وہ بانکا بھی ہے اور شریف بھی، وہ حسن پردہ نشیں پر بھی جان دیتا ہے اور حسن بازاری کا بھی شیدا ہے۔ وہ امرا کی رگ رگ سے بھی واقف ہے اور ان کے مصاحبوں کا فطرت شناس بھی ہے۔ وہ اہلِ سیف بھی ہے اور صاحب قلم بھی ہے۔ سیر سپاٹے بھی کرتا ہے اور میلے ٹھیلوں میں بھی جاتا ہے وہ بزازوں سے بھی ملتا ہے اور لالہ جی سے بھی، مشاعرہ کی دھوم بھی دیکھتا ہے اور بڑے بڑے زہاد سے بھی ملاقات کرتا ہے۔ آزاد ہر قسم کی محفل، ہر قسم کے جلسے میں جاتا ہے۔ اس لیے آزاد کے ساتھ ہم بھی سارے لکھنؤ کی سیر کرتے ہیں۔ لکھنؤ کے ہر طبقے اور ہر نوع کے لوگوں سے ملتے اور ان سے متعارف ہوتے ہیں۔
لیکن سرشار نے جس انداز میں لکھنؤ کی سماجی زندگی کا کھوکھلا پن آ جاتا ہے۔ لکھنؤ کا اونچا طبقہ جو وہاں کی تہذیبی زندگی کی روح رواں رہا ہے۔ سرشار کے زمانے میں انحطاط کے آخری درجہ تک پہنچ چکا تھا۔ لکھنؤ کی تہذیب اور تمدن کی کمزوریاں بے حد نمایاں ہو گئی تھیں۔ کیوں کہ یہ جن بنیادوں پر استوار ہوئی تھی وہ بنیادیں ختم ہو چکی تھیں۔ لیکن عمارت اب بھی باقی تھی۔ عمارت خوبصورت بھی تھی، شاندار بھی، دیدہ زیب بھی تھی دل کش بھی لیکن بنیادیں چونکہ متزلزل ہو چکی تھیں اس لیے اس کے مکین اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔ اس کے باوجود وہ عمارت سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اس کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ عمارت کی اس خطرناک صورت حال کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو نئے سہارے دے کر قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ سرشار بھی اس کے رہنے والوں میں سے ایک تھے۔ ان کو بھی اس سے جذباتی لگاؤ تھا۔ وہ بھی اس کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اور یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ اسے ڈھا دیا جائے۔ لیکن انھوں نے اس کو نئے سہارے دینے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اپنے ناول میں جا بجا لکھنؤ کی سماجی زندگی کے کھوکھلے پن کو اجاگر کیا ہے، نئی تہذیب کے مطالبات کو پیش کیا ہے اور ان سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے فسانۂ آزاد ایک مقصدی ناول ہے اور اس کا بھی مقصد اصلاح معاشرت ہے۔ صالحہ عابد حسین نے درست لکھا ہے کہ :
’’فسانۂ آزاد اگرچہ ایک رومانی داستان ہے اور ایک نہیں بیسوں حسن و عشق کی کہانیاں اس میں موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک مقصدی ناول ہے۔ مصنف کا مقصد اس ناول کو لکھنے سے یہ تھا کہ اپنے زمانے کی معاشرت اور تہذیب کی خامیاں اجاگر کر دے اور لوگوں کو نئے زمانے کے تقاضوں سے آگاہ اور نئی چیزوں سے روشناس کرائے۔ اس لیے اسے ایک اصلاحی معاشرتی ناول کہنا بے جا نہ ہو گا۔ ‘‘
اس کے باوجود فسانۂ آزاد نری مقصدیت کا شکار نہیں ہوا۔ کیونکہ سرشار صرف لکھنؤ کی انحطاطی زندگی کو پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں لیکن اس انداز میں کہ قاری کے لیے مقصد کا تعین کچھ مشکل نہیں رہ جاتا۔ سرشار کے زمانے میں لکھنؤ کی تہذیبی میراث جاگیردارانہ نظام کی خرابیوں کی نذر ہو چکی تھی۔ جاگیردارانہ نظام کی خرابیاں اس لیے نمایاں ہو رہی تھیں کہ وہ اپنی اصل بنیادوں پر قائم نہیں رہی تھیں۔ بادشاہ نہیں رہ گیا تھا۔ صرف امرا رہ گئے تھے۔ دربار نہیں تھے لیکن دربار داری ہر جگہ تھی۔ دولت ختم ہو چکی تھی۔ لیکن اس کی نمائش بدستور باقی تھی۔ طاقت نہیں تھی، طاقت کا مظاہرہ تھا۔ عیش کا سامان نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن عیاشی بہرحال تھی۔ سپاہی کوئی نہیں تھا لیکن بانکا پن بدستور قائم تھا۔ نشہ نہیں تھا خمار ضرور تھا۔ اس حالت میں انسان دن رات یک گونہ بے خودی اپنے اوپر طاری رکھنا پسند کرتا ہے۔ لکھنؤ کی بھی اس زمانے میں یہی حالت تھی، لیکن ایک طبقہ زندگی کے بدلتے ہوئے حقائق کو دیکھ رہا تھا اور اس حقیقت کو تسلیم کر چکا تھا کہ نئے حالات سے آنکھیں چار کرنے میں ہی بقا کا راز مضمر ہے۔ فسانۂ آزاد میں بدلتی ہوئی سماجی زندگی کا احساس صاف طور پر نمایاں ہے۔ انگریز ہندوستان پر قابض ہو چکے تھے۔ ان کی تہذیبی زندگی بھی آہستہ آہستہ اپنا قبضہ جما رہی تھی۔ انگریزی تعلیم او رسائنس کی برکتوں سے لوگ آشنا ہوتے جا رہے تھے۔ ریل، ڈاک، تار، مغربی لباس، مغربی رہن سہن، نامانوس نہیں رہ گئے تھے۔ لیکن ایک طبقہ ابھی ان چیزوں سے بدک رہا تھا اس تہذیب کی کسی بھی چیز کو اختیار کرنا اب بھی اس کے لیے قومی اور مذہبی توہین کے مترادف تھا۔ نئی تہذیب سے نفرت کچھ تو حاکم کی مخالفت کی بنا پر تھی، کچھ قدامت پرستی کی وجہ سے اور کچھ پرانی تہذیبی روایتوں سے محبت کے سبب سے۔ سرشار اس طبقے کو بتاتے ہیں کہ پرانی تہذیب کھوکھلی ہو گئی ہے۔ پھر وہ قدامت پرستی کی بے شمار خامیاں دکھا کر نئی تہذیب کی اچھائیاں واضح کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ پرانی روش پر اڑے رہنے میں قوم و ملک کا نقصان ہے۔ اپنے اس خیال کو پوری طرح سے پیش کرنے کے لیے سرشار نے اپنے ہیرو کو ایک طرح سے نئی تہذیب کا نمائندہ بنا دیا ہے۔ سرشار اس کی زبانی اس زمانے کی سماجی اور معاشرتی خرابیوں پر تنقید بھی کرتے ہیں اور اظہار افسوس بھی۔ آزاد پرانی تہذیب کی خامیوں، قدامت پرستوں اور رئیسوں پر نکتہ چینی کرتا اور ان کا مضحکہ اڑاتا ہے۔ وہ نئی تہذیب اور نئے زمانے کی کچھ کچھ چیزوں کی تعریب کرتا ہے اور ان کو اختیار کر لینے میں جو فائدے ہیں ان کی وضاحت کرتا ہے۔
***