صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
سرمایۂ لب
نوید صادق
جمع و ترتیب:اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
ایک جگنو مری وحشت کا سبب ہوتا تھا
شام کے وقت مرا حال عجب ہوتا تھا
اک ستارہ تھا کہ روشن تھا رہِ امکاں میں
اک سمندر، مرے ادراک میں جب ہوتا تھا
میری وحشت مرے ہونے کے حوالے سے نہ تھی
میرا ہونا میری وحشت کا سبب ہوتا تھا
ایک خوشبو تھی کہ آغوش کشا تھی ہر وقت
ایک لہجہ تھا کہ تحسین طلب ہوتا تھا
ایک آہٹ تھی کہ ہر وقت مرے دھیان میں تھی
اک فسانہ تھا کہ سرمایۂ لب ہوتا تھا
اب وہ خوشحال زمانہ ہی نہیں ہے ورنہ
روشنی کا بھی کوئی نام و نسب ہوتا تھا
میں بھی ہوتا تھا نوید اپنے حوالے سے کبھی
اور ہمہ وقت سرِ بامِ طلب ہوتا تھا
٭٭٭
خود اپنی گواہی کا بھروسہ بھی نہیں کچھ
اور اپنے حریفوں سے تقاضا بھی نہیں کچھ
خود توڑ دئے اپنی انا کے در و دیوار
سایہ تو کجا سائے کا جھگڑا بھی نہیں کچھ
صحرا میں بھلی گزری، اکیلا تھا تو کیا تھا
لوگوں میں کسی بات کا چرچا بھی نہیں کچھ
اب آ کے کھلا، کوئی نہیں، کچھ بھی نہیں تھا
اور اس پہ کسی غم کا مداوا بھی نہیں کچھ
اب یوں بھی نہیں ہے کہ میں بیکار گیا ہوں
اب یوں بھی نہیں ہے کہ کمایا بھی نہیں کچھ
دیکھو تو کسی غم کی تلافی بھی نہیں کی
سوچو تو کسی زخم سے پایا بھی نہیں کچھ
وہ شکل مرے دھیان میں آئی بھی تھی سو بار
وہ رنگ مری روح میں اُترا بھی نہیں کچھ
ویسے مرے اطوار برے تھے کہ بھلے تھے
لوگوں سے کبھی میں نے چھپایا بھی نہیں کچھ
جس گھر کو مرے نام سے نسبت کی سند ہے
اس گھر میں مرے نام کا رکھا بھی نہیں کچھ
احباب مرے حق میں دعا کرتے ہیں، یعنی
دنیا میں ابھی آیا تھا، دیکھا بھی نہیں کچھ
٭٭٭