صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سرگزشت اسیر
وکٹر ہیوگو کی مشہور تصنیف
THE LAST DAYS OF THE CONDEMONED
کا اردو ترجمہ
سعادت حسن منٹو
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
ایک کمرہ
مرثیہ گو شاعر اپنا کلام سنا رہا ہے:۔
دوسرے دن میدان میں نقش پائے یار نظر آیا
با وفا کتا دریا کے کنارے سراپا انتظار تھا
واپسی پر حسینہ کی آنکھیں نم آلود تھیں
ازمنہ قدیم کی یاد گار.... قلعہ سے وہ کسی کو نمناک آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
لیکن خوش الحان مطرب کی صدا
ہاں اسی آتش نفس مغنی کی صدا
صحرائی فضاؤں میں گم تھی....
جملہ حاضرین.... سبحان اللہ! کیسے بلند شعر ہیں۔
مادام دی بلنول.... مقطع کے شعر میں نا قابل بیان اسرار ہے۔ جو آنکھوں میں بے اختیار آنسو لے آتا ہے۔
مرثیہ گو.... اصل واقعہ ابھی پنہاں ہے۔
عسکری( وجدانی حالت میں ) مطرب.... اور صدا کیسے رومان انگیز ہیں۔ مرثیہ گو.... لیکن رومان کی حد سے متجاوز نہیں۔
عسکری....
میں ان رو مان آ فریں اشعار کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا میں ان اشعار کی
خاطر دنیا بھر کے رومان آفرین اشعار قربان کرنے کو تیار ہوں۔
عسکری.... لیکن چٹیل فرانسیسی لفظ نہیں ، ہم کیسنل لکھتے ہیں۔
یکے از حاضرین.... دیکھئے جناب ہم فرانسیسی میں چٹیل نہیں لکھتے بلکہ گا تھک مرثیہ گو.... گاتھک شعر ہیں مستعمل نہیں۔
یکے از حاضرین.... آہ! معافی میں اختلاف ہے۔
مرثیہ
گو.... جناب میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو فرانسیسی زبان کو اشعار میں
لا کر اس کی اصلی صورت کو مسخ کر دیتے ہیں۔ اور ہمیں روز رڈ اور بری بیوف
کے زمانے میں لے جاتے ہیں۔ میں رو مان پسند ہوں لیکن درجہ اعتدال تک۔ اسی
طرح جذباتی شاعری میں بھی۔
میں لطیف اور اندوہ آگیں اشعار پسند کرتا
ہوں۔ لیکن خونی اور سفاکانہ اشعار سے مجھے نفرت ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دنیا
میں ایسے احمق ہیں جو انہیں خیالات کی اشاعت سے.... ٹھہرئیے! کیا آپ نے وہ
نیا ناول دیکھا ہے ؟
خواتین.... کون سی ناول؟
مرثیہ گو.... سر گذشت....
مرد فربہ بس! بس مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنے والے ہیں۔ اس کتاب کا سرورق ہی مجھے لرزہ بر اندام کر دیتا ہے۔
مادام دی بلنول ....بعینہ یہی حال میرا ہے۔ بہت خطر ناک کتاب ہے۔ وہ! میرے پاس اتفاقاً موجود ہے۔
خواتین.... دکھائیے تو ! دکھائیے تو!
(کتاب دست بدست ہر ایک کے پاس پہنچی ہے)
ان میں سے ایک خاتون....( کتا ب کا نام پڑھتی ہے) سر گذشت....
مرد فربہ.... مادام! خدا کے لئے !!
ما
دام دی بلنول.... اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کتاب خوفناک ہے۔ یہ پڑھنے
والوں کو بیمار کر دیتی ہے۔ اور ان کے خوابوں میں ڈراؤنی صورت میں نمو دار
ہو کر ان پر نیند حرام کر دیتی ہے۔
ایک خاتون.... میں اسے ضرور پڑھوں گی۔
مرد
فربہ.... ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تمدن دن بدن روبہ تنزل ہے
میرا خدا! ایک مجرم جسے موت کی سزا مل چکی ہو‘ اس کے آخری لمحات کی کیفیت
اور اس کی جسمانی تکالیف کا بیان کس قدر مہمل خیال ہے۔ کیا یہ خیال
قابل نفرت نہیں ؟ معزز خواتین! کیا آپ کو یقین ہے کہ مصنف نے ’’ سزائے
موت‘‘ پر بحیثیت ایک مصلح کے بحث کی ہے؟
عسکری.... یہ فی الحقیقت بیہودگی کی بہترین مثال ہے؟
مادام.... اس کا مصنف کون ہے ؟
مرد فربہ.... کتاب کی پہلی اشاعت میں سرورق پر مصنف کا نام موجود نہ تھا۔
مرثیہ
گو.... یہ وہی مصنف ہے جواس سے قبل دو ناول اور بھی لکھ چکا ہے۔ میرے ذہن
سے ان کے نام محو ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب کا آغاز مارن سے ہوا اور
انجام تختہ دار پر۔
کتاب کے ہرباب سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ایک دیو بچہ کو نگلنے جا رہا ہے۔
مرد فربہ .... کیا وہ کتاب آپ کی نظروں سے گذری ہے؟۔۔۔ اقتباس
٭٭٭