صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
راہی کی سَرگذشت
غلام مرتضیٰ راہیؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نفسیات
تحریک آزادی کے عروج اور ملک کی تقسیم کے المیہ کا
میں شاہد ہوں۔ انسانی درندگی کی روح فرسا خبروں اور
تصویروں کا کرب آج بھی میری رگِ احساس میں نشتر بن کر چُبھتا
رہتا ہے۔ یہ نشتریت نو دس سال کی عمر سے میری رگ و پے
میں سمائی ہوئی ہے۔ یہ مضراب میرے احساس کے تاروں
کو بیدار رکھتا ہے۔ ہر وقت کسی نہ کسی خیال میں کھوئے رہنے
والے میرے ذہن نے بہت جلد مجھے تنہائی پسند اور
گوشہ گیر بنا دیا۔ گھر میں، اسکول میں، محفل میں، الغرض ہر جلوت میں
مجھے خلوت کا گمان ہونے لگا۔ میں زود رنج نہیں
تھا پھر بھی ہجوم اور ہنگاموں سے ہراساں ہو جانا میری
فطرت کا خاصّہ بنتا گیا۔ مرزا غالبؔ کے مندرجہ ذیل شعر سے
میری خلوت پسندی کو تقویت ملتی ہے
راحت جاوید، ترکِ اختلاطِ مردُم است
چُو خِضَر باید، زِچشمِ خلق، تنہا زیستن
گاؤں میں گھر کے چوپایوں اور پاس پڑوس
کے پالتو کتّا، بلّی، تیتر، بٹیر، طوطا، کبوتر، مور، خرگوش وغیرہ
سے نزدیکی بڑھانا، ان کی حرکات و سکنات کو تجسّس کی نگاہ سے
دیکھنا، ان سے مفاہمت پیدا کرنا ان کی مرغوب غذا مہیّا کرانا،
لہلہاتے کھیتوں کے بیچ اُوس میں نہائی ہوئی سرسبز
مُنڈیروں پر ننگے پاؤں ٹہلنا، دوڑ لگانا، درختوں کی
اونچی اونچی شاخوں سے پھل توڑ لانا، نہر، تالاب اور ندی
میں تیرنا، یہ سب عہدِ طفلی کے میرے پسندیدہ پیرویات
(Hobbies) میں سے ہیں۔ فصلوں کی سنچائی کے
لیے بیلوں کا رہٹ گھمانا، اس کی چکّر دار لڑیوں
میں پروئی ہوئی درجنوں ڈولچیوں (گھری) کا باری باری
کنویں میں اُترنا، پانی بھر کر لانا اور کھیتوں
میں انڈیل دینا۔ اِس عمل کو بار بار دہراتے دیکھنا مجھے
دلچسپ اور پر اسرار معلوم ہوتا تھا۔ بارہویں درجہ میں ہندی
ادب کے نصاب میں شامل ملِک محمد جائسی کی شاہکار تخلیق
’’پدماوت‘‘ کے مندرجہ ذیل دوہے سے، زندگی کے ساتھ رہٹ
کے تعلق کا بھید مجھ پر کھُلا تھا
محمد جیون جل بھرن، رہٹ گھری کی ریت
گھری جو آئی جل بھری، ڈھری جنم گا بیت
قدرتی ماحول میں ا نفس و آفاق کی معنوی درشتگی کے
مشاہدے نے مجھے زندگی کی جدلیاتی حقیقت سے آشنا
کیا اور کوئی شک نہیں کہ تصادم و پیکار سے میری زندگی کو نمو
اور بالیدگی ملی ہے۔ خود اعتمادی، خودسری، عزم و سرکشی، جہد پیہم اور
حالات سے مفاہمت کرنے کے بجائے ستیزہ کاری کا سبق
میں نے نیچر(Nature) سے ہی سیکھا ہے۔ میری انا اور خودی
کے جسم پر نامساعد حالات کی ضرب پڑتی رہتی ہے مگر میں
ٹوٹ پھوٹ کر حلقہ تجسیم میں اپنی تشکیل نو میں مصروف رہتا
ہوں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں خود تردیدی اور خود تنسیخی کا عمل
میری زندگی اور میری شاعری میں جا بجا ملے گا
تغیّر سے جِلا ملتی رہی ہے
جو مَیں پہلے سے بہتر ہو گیا ہوں
میرا دل نِرا حسّاس اور بالکل جذباتی ہے۔ کسی جانور کو خود حلال
کرنا کُجا ذبح ہوتے دیکھ لوں تو اُس کا گوشت مجھ سے
کھایا نہیں جاتا۔ میری نازک مزاجی اور جمالیاتی حِس کا عالم یہ ہے
کہ چرند ہوں، پرند ہوں یا پھل پھلاری، اگر دیکھنے میں
سُبک اور بھلے نہ ہوں تو جانئے کہ میرے منھ کا
نوالہ نہیں بن سکتے۔ مزید برآں دستر خوان کی کسی ایک ڈش
(Dish) میں مکّھی یا کیڑا نکل آنے سے بقیہ ڈشوں
کی طرف سے بھی میری طبیعت یک لخت مکدّر ہو جاتی ہے، کئی دفعہ اس
نفاست پسندی کی وجہ سے لذّتِ کام و دہن سے محروم ہو چکا ہوں۔
یہ علّتیں بچپن سے ہی میری حرز جاں بنی ہوئی ہیں۔
صغرسنی میں میری کوئی لابی (Lobby) نہیں رہی۔ کھیل کود اور
دوسرے معاملات کو لے کر آپسی تنازعوں میں اکیلا پڑ
جانے سے پٹ پٹا کر گھر آ جایا کرتا تھا، مگر میں اُصول
سے ٹس سے مَس نہیں ہوتا تھا۔ میری ہیکڑی مشہور تھی۔ اِسی
اکڑفوں نے مجھ سے یہ دلچسپ شعر کہلوایا
ہے
اپنی قوّت پہ تجھے اتنا بھروسا ہے اگر
میری مرضی کا کوئی داؤ لگانے دے مجھے
آزادی کی پہلی صبح کو میرے والد اپنی سائیکل پر بیٹھا کر
مجھے گھر سے تقریباً تین کلو میٹر دُور پولیس پریڈ گراؤنڈ
لے گئے تھے۔ وہاں برطانیہ کے پرچم کو اُتار کر
ہندوستان کا ترنگا لہرایا گیا تھا۔ باری باری سے بندوقیں
چھُڑائی گئی تھیں، بہت سے کبوتر اور ڈھیر سارے رنگ
برنگے غبارے اُڑائے گئے تھے اور پولیس بینڈ
نے دیش گان (قومی ترانہ) بجا یا تھا۔ اُس وقت میں طِفل تھا،
لہٰذا یہ سب میرے واسطے بازیچۂ اطفال تھا۔
آٹھویں درجہ سے ہی میں اسکول کے کلچرل
پروگراموں مثلاً بیت بازی، مباحثہ اور ڈراموں میں حصّہ
لینے لگا تھا۔ آٹھویں کلاس کے طالب علم کو شعر فہمی کا
شعور کتنا؟ چنانچہ بیت بازی کے ایک مقابلے کی ریہرسل کے
نگراں اُستاد اسلام الحق کے رُو برو میں نے پوری روانی
سے بہ آواز بلند یہ شعر پڑھ دیا
یا الٰہی خیر کر پرچہ بڑا دشوار ہے
منتظم اُلّو کا پٹھّا، چُوتیا سرکار ہے
اُستاد نے پہلے مجھے ڈانٹ بتائی، پھر مذکورہ شعر
کو رذیل اور ذلیل بتا کر اسے حافظے سے محو کر
دینے کی تلقین کی۔ دسویں درجہ میں ’’دہلی کا ایک یادگار
مشاعرہ‘‘ کے ڈرامہ میں مجھے مرزا غالبؔ کا رول ملا تھا
اور ’’دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ‘‘ کے منتخب اشعار
مجھے ازبر کرائے گئے تھے۔
تعلیم
راقم ریاضی (Mathematics) میں کلاس کا سب سے پھسڈّی
طالب علم تھا۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ یہی مضمون میرا مستقل ذریعہ
معاش قرار پایا۔ ریاضی کے علاوہ میں ہر مضمون میں آگے
رہتا تھا۔ بعض مضامین میں مجھے امتیازی نمبر (Distinction
Marks) بھی ملتے تھے۔ لہٰذا پرنسپل گریش چند سریواستوا آٹھویں
درجہ تک مجھے Promotion کا مستحق قرار دیتے رہے۔ نویں
درجہ میں Art side میں آ جانے سے ریاضی (Math)
مجھ سے چھوٹ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہائی اسکول (Metric) میں
نے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
گورنمنٹ ہائر سکنڈری اسکول کے پرنسپل گریش چند سریواستوا کوئی
شک نہیں کہ غیر معمولی قابلیت اور بہترین انتظامی صلاحیت
رکھتے تھے۔ اکثر صبح کے اجتماع (Gathering) میں
اپنے سبق آموز سوانحی کوائف کے ذکر و اذکار سے طلباء کا
عزم و حوصلہ بڑھاتے تھے، بتاتے تھے کہ ہائی اسکول
میں انھوں نے انگریزی کی لغات(Oxford Concise English
Dictionary) پوری کی پوری یاد کر لی تھی۔ کبھی کبھی انگریزی
کے اقوال زرّیں دہراتے اور ان پر عمل پیرا ہونے
کے لیے Inspire کرتے۔ اُن کی زبانی سُنا ہوا مندرجہ ذیل قول
میں کبھی نہیں بھولا اور چھوٹے سے
چھوٹے کام کی انجام دہی میں بھی اِس قول کی افادیت کو ملحوظ
خاطر رکھّا۔
"If I cannot do great things, I can do small things greatly"
مسلم انٹر کالج میں بھی میری سرگرمیاں جاری رہیں۔ کالج
کا ۱۹۵۴ء کا سالانہ مشاعرہ علامہ نیازؔ فتح پوری کی صدارت میں
انعقاد پذیر ہوا تھا۔ مشاعرہ کے منتظم اعلیٰ استاذی نواب علی
خاں گوہرؔ لکھنوی تھے اور میں انتظام و انصرام
میں ان کا دستِ راست تھا۔ استاذی کا یہ شعر بے حد پسند کیا
گیا تھا
سختی میں کھُلا کرتے ہیں انسان کے جوہر
ظلمت میں چمکتی ہے ستاروں کی جبیں اور
انٹر میڈیٹ (Intermediate) میں پانچ عدد لازمی مضامین
میں میرا ایک مضمون ’’تواریخ ہند‘‘ بھی تھا، جس کے لکچرار
امیر احمد، آگرہ کے کسی کالج سے وظیفہ یاب ہو کر آئے
تھے۔ جانے مانے تاریخ داں تھے۔ برٹش سرکار کے
صرفہ پر ہندوستان کے تاریخی مقامات / آثار الصنادید کا باریک بینی
سے مشاہدہ کر چکے تھے۔ چنانچہ موصوف بالخصوص مغلوں
کے دور حکومت کی تاریخ کو درسی کتاب (Text- Book) کے
بجائے اپنے مشاہدہ کی مدد سے پڑھاتے تھے۔ دہلی،
آگرہ، فتح پور سیکری، جے پور، اجمیر، چتّوڑ، کالنجر (جہاں شیر
شاہ سوری مارا گیا تھا) کے قلعوں اور عمارتوں کا
آنکھوں دیکھا حال ایسے محاکاتی پیرائے میں بیان
کرتے تھے کہ میرے تخیّل کے کینواس (Canvas) پر
اُن کی تصویریں اُبھر آتی تھیں۔ اس غائبانہ تعارف نیز یگانگت
سے یہ ہوا کہ جب مجھے مذکورہ تاریخی مقامات کی سیر و سیاحت کا
موقع ملا تو سب کے سب مجھے دیکھے سُنے سے
معلوم ہوئے۔ میرے حافظہ میں ان کی معلومات پہلے
سے محفوظ تھیں۔ اکثر پیشہ ور رہنماؤں (Guides)کو اُن کی غلط بیانی
اور لن ترانی پر ٹوک دیا کرتا تھا۔ علی گڑھ میں لمبے قیام
کے عرصہ میں مذکورہ مقامات کی سیر و تفریح کا مجھے بار بار
موقع ملتا رہا۔ بعض دفعہ غیر ملکی خوبرو سیّاحوں کے قرب کی
لذّت سے محظوظ ہونے کی لَلک میں نام نہاد اور نیم خواندہ
گائڈوں پر اپنی مستند تاریخی معلومات اور انگریزی میں کہیں
بہتر اظہاری لیاقت و اعتماد کا رعب جما کر خود ان خوبرویوں کا مُفت
کا گائڈ بن بیٹھتا تھا۔ ایسے ہی کسی عشوہ طراز ناظورۂ ناز
آفریں کے پیراہن سے جھانکتے ہوئے سراپا کو
دیکھ کر میرؔ نے یہ شعر کہا ہو گا
جس جائے سراپا میں نظر جاتی ہے اس کے
آتا ہے مرے جی میں یہیں عمر بسر کر
٭٭٭٭٭٭٭٭