صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


لے  سانس بھی آہستہ

مشرف عالم ذوقی

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

(۱)

’’پنجرہ ٹوٹ گیا ہے /

پرندہ اڑ گیا ہے

٭٭

میں  نے  کھڑکی کھول لی۔ شاید اس سے  زیادہ اس وقت میں  کچھ کر بھی نہیں  سکتا تھا۔ دسمبر کے  آخری دنوں  کی شام تیزی سے  رات میں  تبدیل ہو رہی تھی-------- کھلی کھڑکی سے  ٹھنڈی ہوا کے  جھونکے  جسم کے  ریزے  ریزے  میں  داخل ہو چکے  تھے۔۔۔  آنکھیں  پرانی یادوں  کے  جنگل میں  کچھ تلاش کرنے  کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔۔۔  ٹھہر ٹھہر کر آدھا ادھورا ایک چہرہ پلکوں  کے  آگے  آ کر کانپ کر رہ جاتا۔۔۔ او ر یہ وہی لمحہ ہوتا جب شریانوں  میں  گرم گرم خون کے  لاوے  اچانک اُبلنا شروع کر دیتے۔۔۔  میری کوشش تھی کہ اس منظر سے  خود کو جتنا چاہے، دور رکھ سکوں -------- مگر کیا یہ ممکن تھا؟

کیا مجھ سے  یہ ممکن ہو سکے  گا۔۔۔ ؟

فضا سرد تھی۔ سامنے  ننگے  درختوں  کی ایک لمبی قطار۔۔۔  مرغزاروں  کی ہری بھری گھاس جیسے  دھند کا لباس پہننے  کی تیاری کر رہی تھی۔ اف۔۔۔  مجھے  یاد آیا-------- صبح دس بجے  تک گہری دھند نے  مجھے  بستر سے  اٹھنے  نہیں  دیا تھا-------- دسمبر کے  آخری دنوں  کی یہ ٹھنڈ اب اس بڑھاپے  میں  مجھے  پریشان کرنے  لگی ہے -------- پہلے  بھی کرتی تھی۔ لیکن اب زیادہ کرنے  لگی ہے۔ اس لیے  اب رات ہو یا صبح، پوری طرح اپنا خیال رکھتا ہوں -------- جیسے، بستر پر ہی اٹھنے  کے  بعد کے  سارے  سامان تکیے  کے  قریب رکھے  ہوتے  ہیں -------- سفید شال-------- جسے  بدن پر ڈال لیتا ہوں -------- گرم موزے۔ رات میں  بھی احتیاط کے  طور پر باتھ روم یا کمرے  میں  ٹہلتے  ہوئے  پاؤں  میں  یہ موزے  ضرور ڈالتا ہوں -------- اور منکی کیپ-------- جسے  پہنتے  ہوئے  انسان سے  اچانک بندر بن جاتا ہوں -------- عمر کی اس منزل پر پہنچنے  کے  بعد جیسے  اب یہ معمولی سی احتیاط بھی میرے  لیے  ضروری ہو گئی ہے -------- ٹھنڈ سے  جسم کو ہر ممکن بچانے  کی کوشش کرتا ہوں -------- ہاں  کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی سی بد احتیاطی مجھے  پریشان کر جاتی ہے -------- جیسے  تیز تیز کھانسی کا اٹھ جانا-------- سینے  کے  پاس تکلیف کا محسوس ہونا-------- سرد موسم میں  اس ڈراؤنے  خیال کا حاوی ہونا کہ کہیں  بلڈ پریشر ضرورت سے  زیادہ نہ بڑھ جائے۔ میرے  کئی دوستوں  کو اٹیک باتھ روم میں  ہی آئے  تھے۔ اس لیے  خاص کر باتھ روم جاتے  وقت پوری طرح خود کو گرم لباس کی قید میں  رکھتا۔۔۔

سورج دھند میں  چھپنے  کی تیاری کر رہا تھا-------- درختوں  کی نہ ختم ہونے  والی قطار پر، چھائی ہوئی دھند نے  ماحول کی دلکشی میں  چار چاند لگا دیئے  تھے -------- مگر رہ رہ کر وہ چہرہ میرے  خیالوں  میں  برق کی طرح کوند رہا تھا۔۔۔

پہلا چہرہ ایک مرد کا تھا۔ ایک بیحد عام سا معصوم سا مرد، جسے  کسی بھی گھر میں  آرام سے  دیکھا جا سکتا ہے۔ اخبار پڑھتا ہوا، آئینہ میں  اپنی ٹائی درست کرتا ہوا۔ صبح کے  وقت دالان یا گھر کے  باہری حصہ میں  چہل قدمی کرتا ہوا۔۔۔  یا بیحد شرافت سے، کسی سے  گفتگو کرتا ہوا--------

دوسرا چہرہ ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی کا تھا۔ بے  حد معصوم سی چھوٹی سی بچی کا۔۔۔

لیکن آخر ان دونوں  چہروں  میں  ایسا کیا تھا، جو مجھے  خوف میں  مبتلا کر گئے  تھے --------؟ ایک ایسے  خوف میں  کہ دسمبر کے  آخری دنوں  کی یہ سرد شام میرے  پورے  وجود میں  آگ کے  بڑے  بڑے  انگارے  رکھ گئی تھی۔۔۔

شاید میں  جل رہا تھا۔۔۔

یا پھر شاید میں  کانپ رہا تھا۔۔۔

یا پھر شاید اپنے  اس وقت کے  احساس کو میں  کوئی نام دینے  سے  قاصر تھا۔۔۔

دو چہرے -------- اور قدرت نے  ان دونوں  چہروں  کے  تعاون سے  ایک ایسی کہانی لکھی تھی، جو شاید اب تک کی دنیا کی سب سے  بھیانک کہانی تھی--------

یا سب سے  بدترین کہانی--------

٭٭


کھلی کھڑکی سے  آتی ہوئی سرد ہوا کے  جھونکے  بدن میں  طوفان برپا کر رہے  تھے۔ یقیناً یہ دروازہ کھلنے  کی آہٹ تھی۔ میں  جیسے  اس ایک لمحے  میں  خیالوں  کی قیامت خیز یا پر فریب دھند سے  باہر نکل آیا تھا--------

یہ سارہ تھی۔۔۔  سارہ کاردار۔۔۔  سترہ سال کی میری پوتی۔ جو شاید دیر سے  میرے  الجھن بھرے  چہرے  کو دیکھ رہی تھی۔۔۔  ددّو اس وقت کھڑکی کے  پاس--------؟ ماجرا کیا ہے۔ پھر سارہ نے  کتنے  ہی سوال خود سے  کیے  ہوں  گے۔ کمرے  میں  آتے  ہی سارہ کی نظر سب سے  پہلے  میز پر رکھے  اس لفافے  پر گئی، جسے  صبح ہی لے  کر وہ میرے  پاس آئی تھی-------- سارہ کو حیرت تھی۔ لفافہ اب تک کھولا کیوں  نہیں  گیا--------؟ ددّو تو خط ملتے  ہی سب سے  پہلے  چاک کر کے  اسے  پڑھتے  ہیں۔ پھر کوئی دوسرا کام کرتے  ہیں۔ اس نے  لفافہ اٹھایا-------- غور سے  لفافہ کو دیکھا۔ اب وہ پر امید تھی‘ جیسے  ددّو اور ان کی الجھنوں  کا ایک راستہ اس خط سے  بھی ہو کر جاتا ہے۔۔۔  لفافہ اس نے  دوبارہ میز پر رکھ دیا۔ چلتی ہوئی کھڑکی کے  پاس آ کر کھڑی ہو گئی--------

کتنی ٹھنڈ ہے  ددّو۔۔۔

ہاں۔۔۔

کھڑکی کیوں  کھولی۔۔۔ ؟

بس، دل چاہ رہا تھا۔۔۔

نہیں -------- کوئی اور بات ہے --------

کوئی بات نہیں  ہے --------

میں  نے  کہا نا، کوئی اور بات ہے۔۔۔

کوئی بات نہیں  ہے --------

کوئی تو بات ضرور ہے  ددّو۔۔۔

اچھا کیا بات ہو سکتی ہے --------؟

پہلے  تم بتاؤ۔ تم نے  وہ خط کیوں نہیں  کھولا۔۔۔ ؟ سارہ میری آنکھوں  میں  جھانک رہی ہے۔ ہوا کا ایک سرد جھونکا میرے  چہرے  سے  ٹکرایا۔۔۔  کھڑکی بند کر دی-------- مجھے  احساس تھا، سارہ کی گہری آنکھیں  بغور میری طرف دیکھ رہی ہیں۔۔۔  مگر میں  اسے  کیا بتاؤں -------- کیا جواب دوں --------

وہ لفافہ کیوں  نہیں  کھولا؟

خط کیوں  نہیں  پڑھا--------؟

اتنی ہمت نہیں  ہے  مجھ میں۔۔۔  وہ دو چہرے -------- وہی دو چہرے  اچانک میری آنکھوں  کی پتلیوں  پر چھا جاتے  ہیں -------- اور جیسے  کسی آسیبی کہانی کا کوئی بیحد خوفناک صفحہ کھل جاتا ہے -------- لیکن میری بھی کیا غلطی۔۔۔  میں  کہیں  نہ کہیں  اس بے  حد خوفناک اور چونکا دینے  والی کہانی کا ایک حصہ رہا ہوں۔۔۔  سچ، جھوٹ اور اخلاقیات کے  وہ صفحے، جو آنکھیں  کھولنے  کے  بعد شاید ہر انسان کا مقدر بن جاتے  ہیں -------- پیدائش کے  بعد سے  ہی جیسے  Ethics، اخلاقیات یا نیتی شاستر کے، ہزاروں  سانپوں  کے  درمیان سے  گزرنا پڑتا ہے -------- گناہ اور ثواب۔۔۔  جائز اور ناجائز-------- لیکن جیسا کہ ابراکسس نے  کہا-------- سچ اور جھوٹ کی اپنی تعریفیں  ہوتی ہیں۔ ٹھیک ویسی ہی تعریف جائز اور ناجائز کی بھی ہے۔ ممکن ہے  اخلاقیات کے  جس باب میں، کسی کے  لیے  جو ناجائز ہو، وہ کسی دوسری جگہ، کسی دوسرے  ملک، کسی دوسری کائنات میں  جائز ہو-------- جیسے  کبھی کوئی ایک تعریف کسی کے  لیے  بھی مطلق سچ نہیں  ہو سکتی-------- مثال کے  لیے  جیسے  جنگ کے  دنوں میں  کسی دوسرے  ملک کا فوجی یا سپاہی جب ہمارے  ملک میں  گرفتار ہوتا ہے  تو وہ دشمن کہلاتا ہے۔ جبکہ یہی دشمن، اس کے  اپنے  ملک کے  لیے  ایک وفادار سپاہی کا درجہ رکھتا ہے --------

کبھی کبھی قدرت کے  آگے  ہم بیحد کمزور ہو جاتے  ہیں۔۔۔

اور سپر ڈال دیتے  ہیں --------

سارہ میری طرف دیکھ رہی ہے۔ کبھی آپ کو اتنا پریشان نہیں  دیکھا ددّو۔ بات کیا ہے۔۔۔ ؟

مسکرانے  کی کوشش میں  جیسے  میری آنکھیں  صاف چغلی کھا جاتی ہیں۔ کیسے  کہوں  کہ میں  اخلاقیات کی جس نئی اندھیری سرنگ سے  گزر رہا ہوں، تم وہاں  دیکھنے او ر جھانکنے  کی ہمت بھی نہیں  کر سکتی-------- سارہ، برسوں  پہلے  کہیں، کسی خطے  میں  ایک عجیب سی کہانی شروع ہوئی تھی۔ جس نے  شاید لفظوں  کے  معنیٰ ہی بدل ڈالے -------- زندگی میں  کتنی ہی آسیبی اور ڈراؤنی کہانیاں  پڑھی ہیں۔ لیکن تب نہیں  جانتا تھا کہ اسی زندگی کی کوئی کوئی کہانی کسی بھوت پریت اور جن کی کہانیوں  سے  بھی زیادہ خوفناک ہو سکتی ہے۔۔۔ !

اسی زندگی کی کہانی-------- رشتوں  کی کہانی-------- کبھی کبھی رشتے  الجھ جاتے  ہیں او ر ایسا لگتا ہے  جیسے  قدرت نے  کوئی بے  رحم مذاق کیا ہو--------

آنکھوں  کے  آگے  عمر کی سبز گھاس پر دوڑتے  ہوئے  ہزاروں  گھوڑے -------- بچپن سے  لے  کر اب تک کی زندگی کے  تمام سفید و سیاہ رنگ میری آنکھوں  کی پتلیوں  پر روشن ہیں۔ ان آنکھوں  نے  کتنی جنگیں  دیکھی ہیں۔ کیسے  کیسے  لوگوں سے  میرا واسطہ پڑا ہے۔ ہزاروں  طرح کے  لوگ-------- بچے  سے  بوڑھے  تک۔ جلے  ہوئے  جسم سے  گولیوں  سے  چھلنی سینے  تک--------کیسی کیسی لاشیں  ان آنکھوں  نے  دیکھی ہیں۔ کیسی کیسی چیخیں او ر کراہیں  سنی ہیں۔ زندگی کے  اس لمبے  سفر میں کیا کچھ نہیں  دیکھا-------- اپنوں  کو مرتے  ہوئے -------- چین کے  حملے  سے  پاکستان کی جنگ-------- دہشت پسند کار روائیوں  سے  لے  کر 9/11 اور 26/11 کے  دل دہلا دینے  والے  واقعات۔ سنامی سے  لے  کر گجرات بیکری حادثے  تک۔۔۔  واقعات اور حادثات کی ایک نہ ختم ہونے  والی تفصیل۔۔۔  ایک سے  بڑھ کر ایک خوفناک کہانیاں -------- بھیانک داستانیں۔

لیکن کیا کوئی داستان یا کہانی اس سے  زیادہ بھیانک ہو سکتی ہے --------؟


’لو‘ منکی بن جاؤ ددّو۔ ٹھنڈ بڑھ گئی ہے۔۔۔ ‘ سارہ نے  بستر سے  منکی کیپ اٹھا کر مجھے  پہنا دی۔

’کل پتہ ہے ‘ رات میں  گھوڑے  کے  گرنے  کی آواز آئی تھی۔۔۔  سارہ میری خاموشی کو توڑنے  کی کوشش کر رہی ہے -------- یہاں  پر کافی ڈھلان ہے۔ ہے  نا۔۔۔ ؟ تم ہی تو بتاتے  تھے  ددّو کہ یہاں  اکثر گھوڑے  پھسل کر یا تھک کر گر جاتے  ہیں۔۔۔

بکواس۔۔۔  گھوڑے  نہیں  گرے  تھے۔۔۔

گرے  تھے  ددّو۔۔۔

اور تم نے  اس کی آواز سنی تھی۔۔۔ ؟

ہاں۔ وہ گرتے  ہوئے  بھی ہنہنا رہے  تھے۔۔۔

میرے  چہرے  پر ہلکی سی چمک نمودار ہوئی تو سارہ ہنس پڑی۔ اب دیکھو۔ تم کتنے  اچھے  لگ رہے  ہو ددّو۔۔۔

کانوں  میں  بہت عرصہ پہلے  پڑھی ہوئی ہر من ہیسے  کے  ناول ڈیمیان کے  لفظ حرکت کرتے  ہیں۔ ’سنو سنکلیر۔۔۔  شاید تمہیں  ایک بار پھر میری ضرورت پڑے -------- اگر تم نے  مجھے  پھر بلایا تو میں  یوں  گھوڑے  کی طرح سرپٹ تمہارے  لیے  بھاگا چلا آؤں  گا۔۔۔  نہیں  تم غلط سوچ رہے  ہو سنکلیر-------- میں  نہیں  آؤں  گا-------- تم نے  خود اپنے  ہی اندر کی آواز سنی ہو گی-------- تم دیکھو گے  کہ میں  تمہارے  ہی اندر ہوں -------- سنوسنکلیر یہ دنیا ایک چھوٹے  سے  انڈے  کی مانند ہے -------- انڈا ٹوٹنے  ولا ہے۔ ایک نئی دنیا سر نکالنے  والی ہے۔ ‘

سنّاٹے  میں  ہوں -------- مجھے  لگا، جیسے  میں  اپنی ہی آواز کے  نرغے  میں  ہوں۔ میری اپنی آواز۔۔۔ او ر سنکلیر کوئی دوسرا نہیں۔ نور محمد ہے۔۔۔  نور محمد۔۔۔

تو انڈا ٹوٹ چکا ہے۔۔۔  پرانی دنیا کے  خاتمے  سے  ایک نئی تہذیب اپنا سر نکالنے  والی ہے -------- مرغی کے  چھوٹے  چھوٹے  بچوں  کی طرح۔۔۔

٭٭

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول