صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اختر و سلمیٰ کے خطوط
سلمیٰ و اختر کی باہمی مراسلت (مکاتیب)
اختر شیرانی
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
کوکب کا خط
کیونکر کہوں کہ خواب نہیں جاگتا ہوں میں
یہ آنکھیں ! اور یہ!!میرے پروردگار!!خط!!!
۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جانتا کہ کن الفاظ سے آپ کو مخاطب کروں ۔ ۔ ۔ ؟اِس لیے کہ آپ کے محبت نامہ نے جن تاثّرات و احساسات کا ہیجانِ عظیم دل میں پیدا کر دیا ہے اُس نے آپ کے خط کے جواب میں میرے پاس مدہوشی و سرشاری کے سوا کچھ باقی نہیں چھوڑا۔
میں اور خطِ دوست خدا ساز بات ہے
جاں ، نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
پچھلی رات کی یہ مستانہ کیفیت!اور اضطرابِ روحی کا یہ عالم!۔ ۔ ۔ ۔ اللہ جانتا ہے یہ مبہوت لمحے کیونکر گزار رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟دل و دماغ میں ایک محشرِ بے خودی!ایک قیامت زا دیوانگی برپا ہے اور میں اپنے آپ میں اِس کی ہمّت و اہلیت نہیں پاتا کہ صحیح معنیٰ میں آپ کو مخاطب کر سکوں !سب سے زیادہ جو چیز۔ ۔ ۔ ۔ میری پریشانی کا باعث ہے !وہ ”نادلانہ“ کیفیت ہے جس نے مجھے اِس طور پر آپ کی شوخ و شنگ۔ ۔ ۔ ۔ مگر پُر اسرار شخصیت سے دوچار کر دیا ہے ۔ آہ وہ شخص!جو غریب اچھی طرح جانتا ہو!کہ فطرت کی“ فیّا ضی” نے اُسے نہ تو کسی قسم کے حسنِ معنوی سے سرفراز کیا ہے اور نہ حسنِ ظاہری سے ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر اس کو بتلایا جائے کہ ایک فرشتۂ ارضی۔ ایک حورِ دنیا۔ ایک برقِ جمال۔ ایک پیکرِ شعاع ۔ ایک مجسّمۂ نور۔ ۔ ۔ ۔ ایک صنمِ نگہت و رنگ۔ ایک پرستیدۂ حُسن۔ ایک موضوعِ ادب و شعر۔ اُس کی ”بے رنگیوں “ کو محبت کی نظروں سے دیکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور بالخصوص اُس حالت میں جب کہ بتلانے والی ہستی بھی خود، وہی ہو۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ ہی سوچئے ۔ وہ بے چارہ اِس پر کہاں تک؟۔ ۔ ۔ ۔ کیونکر ؟۔ ۔ ۔ اعتبار کر سکتا ہے ؟ کیونکر یقین کر سکتا ہے ؟
آپ نے مجھے ”دیوتا“ کہہ کر میرے اعمال و جذبات کے ساتھ ایک نہایت بے دردانہ مذاق کیا ہے ایک حد درجہ ”اندوہ گیں “ فریب کھیلا ہے !۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی اِس ”ستم ظریفی“ اِس مہلک شوخی! کا کیا جواب دوں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟سوائے اِس کے کہ اپنی جگہ پر کڑھوں ، جلوں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اُف تک نہ کروں ۔ !!آپ کو مجھ سے میری ”نا آشنائیِ رحم“ کا شکوہ ہے !۔ ”بیداد گری“ کی شکایت ہے !کاش کہ یہ جائز ہوتی! کاش کہ میں صحیح مخاطب ہو سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ! کیونکہ ”شکایت“ بھی”دنیائے محبت“ میں ”عین محبت“ تسلیم کی جاتی ہے !۔ ۔ ۔ ۔ مگر جب! مجھے سرے سے اِس ”تھئیٹر“ کی سی فریب آرایانہ! اور محض ستم ظریفانہ مناظر سامانیوں پراعتماد نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ ہی انصاف کیجئے ! میں اِن گِلے شکووں کا کیا جواب دوں ۔
اُلٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ!
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذرِ جفا کے ساتھ!!
حقیقت یہ ہے کہ تصویر کا ایک ہی رُخ آپ کے سامنے ہے ورنہ آپ ایسا لکھنا کبھی گوارا نہ کرتیں ۔
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کام کیا؟
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے
میرا خیال ہے کہ اگر سارے ”حالات و واقعات“ آپ کے سامنے ہوں تو شاید حقیقت کے چہرے سے نقاب اُٹھ جائے اور تب۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو معلوم ہو کہ جو گلہ آپ کو مجھ سے ہے وہ دراصل مجھے آپ سے ہونا چاہئے تھا۔ ۔ ۔ ۔ !میرے ”ظلم و بیداد“ کا شاید اُس نظم سے اندازہ ہو سکے گا جس کا عنوان ”اُن سے “ہے مگر اَب” تم سے“ ہونا چاہیے اور جو اِس عریضہ کے ساتھ ملفوف ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اُس زمانہ سے لے کر۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ آپکے ”خیالات“ کو مجھ سے غائبانہ شناسائی حاصل ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ اب تک کے تمام واقعات مفصلاً مجھے لکھ بھیجیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر میں بھی اپنی تمام ”داستانِ غم“ آپ کے حضور میں دہرا دوں ۔ ۔ ۔ ۔ !!اگر آپ نے ”عنایت“ فرمائی تو یقیناً بہت سی چیزیں تاریکی سے روشنی میں آ جائیں گی۔ ۔ ۔ ۔ اور جن کو اب آ جانا چاہیے ۔ یہ عریضہ آپ کے خط کا جواب نہیں ہے بلکہ اِس سے محض آپ کی تشفّی مقصود ہے ۔ آپ کو یقین کرنا چاہئے کہ آپ کا ”راز“ صرف ” آپ ہی کا راز“ نہیں ہے بلکہ اِس میں میرے دل کے ٹکڑے بھی شامل ہیں ۔
دنیا میں ترے عشق کا چرچا نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رُسوا نہ کریں گے
کیا محترمہ ” ثریّا جبیں “ کی خدمت میں اب بھی میں یہ عرض نہیں کر سکتا کہ
ہمنظر بازوں سے تُو چھُپ نہ سکا جانِ جہاں
تُو جہاں جا کے چھُپا ہم نے وہیں دیکھ لیا
ممکن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میرے آئندہ خط سے آپ” پہلی مرتبہ“ معلوم کریں کہ میرا اب تک جو طرزِ عمل رہا۔ ۔ ۔ ۔ وہ کس حد تک مجبورانہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ مطمئن رہئیے کہ کوٹھی پر آنے سے میری ” ” ” کسرِ شان“ نہ ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ چاہیں گے تو میں اُن ذاتِ شریف کا نام بتلا دوں گا۔ ۔ ۔ ۔ کیا ”اب پہلی اور آخری درخواست“ کرنے والوں سے میں اتنا پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہوں ؟اور کیا لکھوں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟سوائے اِس کے کہ کاش کچھ لکھنے کی ہمت ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ !!آہ ۔ ۔ ۔ ۔ !
نہ دے نامہ کو غالب طول اتنا مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جُدائی کا
راقم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”کوئی“
سلمیٰ کا خط
(١)
آخر وہ آ گئے مجھے دینے تسلّیاں
آخر ہوا اُنہیں مرے صدمات کا یقین
دلنوازم ۔ ۔ ۔ ۔ فدایت شوم
نامۂ جان آفریں موصول ہوا۔ ۔ ۔ ۔ اِس ”غیرمتو قع“ محبت اور لطف و کرم کا بہت بہت شکریہ۔ ۔ ۔ ۔ مگر کیونکر یقین کروں کہ آپ کی” گلفشانیاں “ حقیقت سے ہمدوش ہیں ؟کیسے باور کروں کہ آپ نے مکتو بِ محبت میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ ”صداقت“ پر مبنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آہ!۔ ۔ ۔ ۔ بھلا میں ناچیز اِس قابل کہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کہ ایک ایسے فردِ گرامی کی محبت کا فخر حاصل کر سکوں ۔ جو بہ ہمہ صفت موصوف اور یکتائے زمانہ ہو؟۔ ۔ ۔ ۔ کاش کہ میں اِس لائق ہوتی!۔ ۔ ۔ ۔ ہو سکتی!! میں سمجھتی ہوں یہ میری انتہائی بدنصیبی ہے کہ آپ کو میری ”بے پایاں “۔ ۔ ۔ ۔ ”لازوال“ اور ”بے لوث“ محبت کا اب تک یقین نہیں ہوا، اور آپ اِسے تھیئٹر کی فریب آرایانہ اور محض ستم ظریفانہ مناظر سامانیوں پر محمول فرما رہے ہیں حالانکہ دو سال کی طویل اور روح فرسا مدّت سے غمہائے محبت سہتے سہتے میری یہ حالت ہو گئی ہے کہ
صورت میں خیال رہ گئی ہوں
خصوصاً ان دنوں تو دل و دماغ کی کچھ اِس درجہ زار حالت ہے کہ میں خود بھی اِس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتی۔۔۔۔ ہر قسم کا ذوق و شوق مفقود اور خواب و خَور حرام ہو گیا۔
اکثر اوقات میں سوچنے کی کوشش کرتی ہوں کہ آخر یہ مدہوشی کب تک؟کہاں تک؟اور اِس کا نتیجہ کیا ہو گا؟مگر نہیں سوچ سکتی۔ سنبھلنے کی لاکھ کوشش کرتی ہوں مگر نہیں سنبھل سکتی۔ ہر دیکھنے والے کا میری طرف دیکھ کر سب سے پہلے سوال یہی ہوتا ہے کہ تمہاری یہ کیسی حالت ہو گئی ہے ؟تم تو اَب پہچانی نہیں جاتیں ؟؟جس کے جواب میں میرے پاس ایک افسردہ، ایک پژمردہ تبسّم کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ آپ سے اِس طرح ”اظہارِ غم“ کرتے ہوئے میرے جذباتِ حیازخمی ہو جاتے ہیں آپ کو”دردِ دل کا چارہ ساز“ سمجھتے ہوئے خاموش بھی نہیں رہا جاتا۔ ۔ ۔ ۔ آہ!:-
زندگی کس کام کی جب ہو یہ حالِ زِندگی
ٹل بھی جائے اب کہیں سر سے وبالِ زندگی
جنابِ والا۔ ۔ ۔ ۔ مہربانی فرما کر آپ اپنا یہ شعر واپس لے لیجئے کہ
تم ہو اب اور مدارات ہے بیگانوں کی
کون لیتا ہے خبر عشق کے دیوانوں کی
اِس لیے کہ اِس کے صحیح مخاطب آپ خود ہی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں ذرا گریبان میں منہ ڈال کر دیکھئے اور پھر کچھ فرمانے کی کوشش کیجئے ۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ”چلی گئیں “ کی سی درد انگیز نظم جو آپ کے جذباتِ محبت کی آئینہ دار تھی۔ بھول گئی ہوں ؟؟نہیں ۔ اِس نظم کا ایک ایک شعر آتشیں حرفوں سے میری لوحِ دماغ پر نقش ہے ۔ اب جو آپ نے ”اُن سے “ کے عنوان سے نظم لکھ بھیجی ہے میں کیسے نہ کہوں کہ اِس میں بھی اُسی ”ہندو خاتون“ کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ افسوس:-
لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت تیری
میرے خط نہ لکھنے کی یہ وجہ نہ تھی کہ میں خدانخواستہ کسی اور خیال میں محو تھی۔ بلکہ اِس کا باعث یہ تھا کہ میں آپ کی ”نو عروسانہ خلوت و جلوت“ میں مخل ہونا نہیں چاہتی تھی۔ نیز میرا خیال تھا کہ آپ میری مراسلت سے نہایت بیزار ہیں ۔ ورنہ میری جو کیفیت رہی ہے اُسے یا تو خدا جانتا ہے ۔ یا میں ۔ ۔ ۔ ۔ !!
آپ نے شروع سے لے کر آخر تک کے واقعات معلوم کرنے کی خواہش ظاہر فرمائی ہے جس کے جواب میں فقط اتنا عرض کر سکتی ہوں کہ:-
اپنے جلووں کا کیا تُو نے ہی میں خود شیفتہ
ہم ہوئے تھے مبتلائے عشق تیرے نام سے
میں آپ کے مضامین (نظم و نثر)کے مطالعہ سے آپ کی ”نا دیدہ تمنّائی“ ہو گئی اور پھر اس کے بعد عالمِ وارفتگی میں ، جو جو حماقتیں مجھ سے سرزد ہوئیں اور ہوتی رہیں ، اُن سے آپ بے خبر نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟اچھا۔ ۔ ۔ ۔ اب آپ مفصلاً تحریر فرمایئے کہ آپ کوکس طرح اصلیت و حقیقت معلوم ہوئی۔ اب اِس طرح تصویر بھیج دینے سے کیا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟میری درخواست تو آپ نے مسترد فرما ہی دی تھی نا۔ ۔ ۔ ۔ ؟بہرحال میں آپ کی اِس عنایتِ بے غایت کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ !کیونکہ آپ کی شبیہ میرے لئے باعثِ صبر و قرار ہے جب اضطراب قلب حد سے سِوا ہونے لگتا ہے ۔ تو میں چپکے سے آپ کی صورت دیکھ لیتی ہوں مگر آپ کہاں ماننے والے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ دوسرے سوالات کا جواب بشرطِ زندگی کسی آئندہ فرصت میں ۔ میں تہِ دل سے ممنون ہوں (اور ساتھ ہی شرمسار بھی) کہ آپ اُس روز محض میری خاطر اِس قدر تیز بارش اور شدید سردی میں اتنی دُور سے تشریف لائے ۔ آپ کا یہ ایثار میں تسلیم کرتی ہوں ، مستحقِ داد ہے اور آپ کی محبت کا ایک بلیغ ثبوت!!مگر آہ!:-
گھر ہمارے ہائے کب آیا ہے وہ غفلت شعار
جب ہماری خانہ ویرانی کا ساماں ہو چکا
راقمہ(آپ کی تقلید میں )
بھول جانا نہ ہمیں یاد ہماری رکھنا
خط کتابت کی سدا رسم کو جاری رکھنا
(پنسل کی تحریر)
معاف فرمائیے گا عریضہ ہذا بہت جلدی میں لکھا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭