صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
جدید اُردو نظم اور محمد سلیم الرحمن کی شعری کائنات
ڈاکٹر ناہید قمر
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
تاریخ ادب سے یہ بات بخوبی ثابت ہے کہ دیگر اصنافِ ادب کی بہ نسبت شاعری زمانے کے رجحانات کی واضح انداز میں خبر دیتی ہے۔ ایسا شاید اس لیے ممکن ہے کہ شاعری اپنے معاشرے اور اپنے قارئین سے براہ راست گفتگو کرتی ہے اور اس ہم کلامی کے دوران وہ حقائق بھی آشکار ہوتے ہیں جن سے زمانہ اپنے رجحانات اخذ کرتا ہے۔ شاعری اس اعتبار سے اپنے عہد کی تخلیقی دستاویز ہوا کرتی ہے۔
اُردو نظم کی جو روایت آج سے ساٹھ ستر برس قبل ظاہر ہوئی اور جس کی نمائندگی راشد، میراجی اور مجید امجد کرتے تھے، اس کا موضوع انسان تھا جس کی پہچان کے حوالے اس کے خارجی ماحول میں موجود تھے۔ اس دور کی نظم نے انسان کے جس تصور کی فکری اور جذباتی طور پر نشاندہی کی وہ انسان عام زندگی کے تمدنی باشندے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اس نظم میں انسان کی شناخت اور عدم تکمیلیت کا گہرا احساس موجود ہے۔ اس لیے اس شاعری کے فکری رجحانات میں visionکو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
۴۷ء کے بعد اُردو نظم میں جو رجحانات ظاہر ہوئے وہ فکری اور لسانی تھے، اور ان میں انسانی تجربے اور واردات کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ قیام پاکستان کے وقت اُردو نظم رومان اور احتجاج کی دستاویز تھی اور یہ رجحانات اُردو نظم کی سرشت میں بہت گہرے تھے۔ لیکن جدید نظم جو فکری اعتبار سے وجودی فلسفے سے متاثر تھی اور انسان کی تنہائی اور مغائرت و بیگانگی کے احساس کو تخلیقی مقاصد کے لیے استعمال کرتی تھی، اس نے انسان کی داخلی صورتحال اور خارج کے مابین مکالمے کی صورت پیدا کی۔ جس سے نئے استعارات، تلازمات اور علامتی معنویت کے حامل امکانات وجود میں آئے۔ اور گذشتہ کچھ عرصے میں مسلسل ہیئتی، لسانی اور فکری تجربوں سے گزرتی ہوئی اُردو نظم آج جن خدوخال کے ساتھ ہمارے سامنے ہے، اس میں راشد کی پر شکوہ الفاظ اور خطابیہ لہجے کے روایت اپنے اسلوب کی تمکنت اور اثرات کے باوجود آگے چلتی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ راشد کے تتبع میں اپنا اسلوب تراشنے کی کوشش کرنے والے شعراء اپنے تمام تر تخلیقی امکانات کے باوجود کوئی دیر پا شناخت بنانے سے قاصر رہے ہیں۔ مجید امجد نے بھی زندگی کے مسائل اور وجودی حوالوں سے متشکل ہونے والی انسانی شناخت کو اپنی نظموں میں جس کامیابی سے سمویا اس کے، بعد میں آنے والے نظم نگاروں پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ اور کئی شعراء نے مجید امجد کے شعری آہنگ سے اپنے تخلیقی امکانات کی دریافت کی راہ تلاش کی۔ 60ء کی دہائی کے شعراء نے اُردو نظم میں انسان کے معاشرتی اور تمدنی تصور کرنا مکمل قرار دیا او زندگی کے مفہوم کو اس کے محدود زاویۂ نظر سے الگ کرتے ہوئے اس تصورِ کائنات کے ساتھ مربوط کیا، جس کی مثال ہمیں جیلانی کامران کے یہاں ملتی ہے۔ اس دور میں اُردو نظم میں لفظ کے استعمال کو مرکزی اہمیت دینے کا ایک رویہ بھی نظر آتا ہے۔ جس کی ابتداء افتخار جالب نے کی۔ انھوں نے نظم کا لسانی پیکر دریافت کرنے کی کوشش کی۔ نئی شاعری کے اس تصور کی بنیاد شعری تجربے کی کلیت، نئے لسانی اظہاریوں کی دریافت اور لفظ و معنی کی نئی سطحوں کی تجسیم کے عمل پر تھی۔ مگر لسانی تشکیلات کا یہ رجحان قائم بالذات نہ ہونے کے سبب اُردو نظم کی تقویت کا باعث نہ بن سکا۔
گذشتہ چالیس پچاس برسوں کی نظم فکری اعتبار سے وجودی فلسفے سے متاثر رہی ہے۔ اس کے تحت تخلیق کاروں نے تنہائی کے آشوب سے نجات کے لیے داخل اور خارج میں ہم کلامی کی صورت نکالی۔ یہ رویہ تنہائی کو موت کے ساتھ مربوط کرتا ہے جس کی ایک اہم مثال منیر نیازی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ وہ شعرا جن کا تہذیبی تناظر شہری زندگی اور اس کے مسائل سے عبارت ہے، ان کے ہاں یہ تجربہ وجودیت پسندی کا حامل نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں قمر جمیل، مبارک احمد، زاہد ڈار، عباس اطہر، افضال احمد سید، عذرا عباس اور عبدالرشید وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ جبکہ وہ شعرا جن کے ذہنی سفر میں کہیں نہ کہیں قصباتی زندگی کے پڑاؤ موجود ہیں ، ان کے ہاں زمین اور فطرت سے گہرے انسلاک کے تحت تنہائی اور بیگانگی کے سوالات صوفیانہ جہت کے حامل نظر آتے ہیں۔ محمد سلیم الرحمن کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے۔
معاصر نظم پر مجموعی نظر ڈالنے سے اندازہ ہو تا ہے کہ ہم شاعری کے عجیب بے برکت عہد میں سانس لے رہے ہیں۔ سنجیدہ اور باصلاحیت شعراء کی انتہائی قلیل تعداد اس امر کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ ہر عہد کا تخلیق کار اپنے ذہن کی تنہائی میں زندہ رہتا ہے۔ ایک ہی عہد میں بہت سے شعرا تخلیقی اظہار کے مختلف راستے اپناتے ہیں ، مگر ان میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس کی تخلیق کی طرف قاری بار بار پلٹ کر دیکھتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ سوال اس شاعر کی معنویت کو سمجھنے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ ہر بڑے شاعر کا ایک آفاقی تناظر بھی ہو تا ہے اور اس کی شاعری اپنے زمانے کے حصار سے باہر بھی نکلتی ہے۔ محمد سلیم الرحمن کے تخلیقی شعور کی امتیازی خصوصیت یہی ہے کہ وہ اپنے مرکز سے علاحدہ ہوئے بغیر اور اپنے مقام کو چھوڑ ے بغیر ایک ایسے تہذیبی مسئلے کی نشاندہی کر سکتا ہے جو رفتہ رفتہ عالمگیر بنتا جا رہا ہے۔ ہمارا اجتماعی وجدان، ہمارا تاریخی شعور، ہر حقیقت کی طرف ہمارا رویہ، غرض یہ کہ اس شاعر میں زندگی کے تمام تجربوں کو ایک عالمگیر سچائی میں منتقل کر دینے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ ان کے ہاں جو انسان دوستی کا جذبہ ملتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ان کا ذہن مشرق و مغرب اور ماضی و حال کا ایک ساتھ احاطہ کر سکتا ہے۔ انفرادیت کا احساس ان کے ہاں بہت شدید ہے اور اس احساس کو بنیاد فراہم کرنے والی اصل حقیقت ان کی اپنی تہذیبی شناخت کا تصور ہے۔ اور یہی وہ پس منظر ہے جس میں ان کی نظمیں اپنے عہد کی سیاسی، روحانی اور ادبی اقدار متعین کرتے ہوئے اپنی معنویت ہم پر واضح کرتی ہیں۔
٭٭٭