صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سکردو میں پونم

ڈاکٹر محمد  اقبال ہما

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

الف لیلائے سکردو

داستانِ سکردو سے دامن بچا کر سکردو سے واپسی بے وفائی کے مترادف ہو گی۔ سکردو کی کئی وجوہات تسمیہ بتائی جاتی ہیں او ر سب اسم با مسمیٰ ہیں۔سکر دو مندرجہ ذیل الفاظ میں سے کسی ایک کی بگڑی ہوئی شکل ہو سکتا ہے:

سکندر آباد یا سکندر پور        سکندر اعظم سے منسوب

سکر۔ما۔دو        تاروں بھر رات کی وادی

سکر۔ دو            مقپون خاندان کے جد امجد سکر گیا لپو کی وادی

 ساگر۔دو        دو سمندروں یعنی دریائے سندھ اور شگر کی وادی

میں نے سرزمینِ سکردو پر قدم رکھا تو مجھے سخت حیرانی ہو ئی کہ وہ کون سر پھر ے تھے جنہوں نے پانچ صدی قبل مسیح میں سکردو آ کر مستقل رہائش اختیار کی جب کرہ ارض کا میدانی اور زرخیز حصہ بڑی حد تک غیر آباد تھا؟

سکردو آج بھی آسانی سے قابلِ رسائی نہیں۔ بس کے سفر میں مسافر کے چودہ طبق روشن ہوتے ہیں تو فضائی سفر جہاز کے پندرہ طبق روشن کر تا ہے۔ ہفتوں تک جہاز کو سکردو آنے، اور آ جائے تو لینڈ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب مجھے علم ہوا کہ  بلتستان سرسبز چراگاہوں کا دیس ہے اور اس کے کئی دریاؤں میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں۔  لوگ سونے اور چارے کی تلاش میں یہاں آئے اور یہیں کے ہو رہے، تو حیرانی ختم ہو گئی۔

 بلتستان کا اوّلین ذکر چین کے قدیم جنگ ناموں میں ملتا ہے۔ مارکوپولو نے اسکا ذکر ’’پولو‘‘ یا ’’پولا ‘‘ کے نام سے کیا ہے جو عربی میں ’’بولور‘‘ اور فارسی میں ’’بلاورستا ن ‘‘ بنا۔ چینی اور تبتی تاریخ دان اسے ’’ بلتی یُل ‘‘ کہتے ہیں جو  بلتستان بن گیا۔ مغل مورخین  بلتستان کو ’’تبت خورد‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ڈوگرہ حکمران سکردو کو صرف ’’کردو‘‘ کہتے تھے۔

بلتستان میں انتقالِ آبادی تیسری یا چوتھی صدی قبل مسیح میں تین سمتوں سے ہوا۔

(۱)  تبت سے براستہ گلگت دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ (عالم پل تا سکردو روڈ) سفر کر کے آنے والے لوگ شگری،  کچورہ، چُندا۔ اور بیانا مقپو میں آباد ہوئے۔

(۲)  ہنزہ اور نگر سے آنے والے ہسپر لا ء اور اسکولی ہوتے ہوئے شگر پہنچے۔

(۳)  جموں و کشمیر سے زوجی لاء عبور کر کے آنے والے خپلو میں آباد ہوئے۔

بلتی یُل کی آبادی میں اضافے کے بعد طاقت کا کھیل ناگزیر تھا تاکہ فاتح اور مفتوح کا فیصلہ ہو سکے۔ اس کھیل میں تبت نژاد ’’گیالپو سکر‘‘ کا خاندان فاتح رہا اور  بلتستان کے حقوق حکمرانی حاصل کر کے شگری کو پایہ تخت قرار دیا۔ایک طویل دور حکومت کے بعد سکرگیالپو کے وارثوں پر ایسا وقت آیا کہ راجہ کے خاندان میں ایک خاتون مس شگری کے سوا کوئی وارثِ تخت نہ رہا۔ راجہ کے بارہ وزرا میں سے ہر ایک شگری کی شادی اپنے بیٹے سے کرنے کا خواہش مند تھا تاکہ اس کا بیٹا مستقبل کا راجہ قرار پائے۔ان حالات میں دیوتا مقپون یا شہزادہ ابراہیم مصر سے یا ایران سے آن ٹپکا اور سوئمبر جیت کرمس شگری کی سلطنتِ دل کے ساتھ ساتھ حکومت شگری کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ وزیر زادے شگری کے رخِ زیبا کے بجائے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اور عظیم مقپون دور کا آغاز ہوا۔

سیاسی لحاظ سے تاریخ سکردو کو چار ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

(۱) قبل مسیح تا مقپون دور بلتستان کا دورِ جاہلیت کہلاتا ہے۔ اس دور کے بارے میں تاریخ خاموش ہے اور درست حالات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔اس دور میں  بلتستان کے باسی پہلے ’’ پون چھو‘‘ اور بعد میں ’’بدھ مت ‘‘ نامی مذہب پر عمل پیرا رہے۔

(۲)  مقپون دور ساڑھے پانچ صدیوں (۱۲۹۰ء  تا  ۱۸۴۰؁) پر محیط اور عروج و زوال کے شاہکار افسانوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا راجہ مقپون ابراہیم اور آخری احمد شاہ تھا۔ پندرھواں راجہ علی شیر خان انچن ’’ مقپون اعظم‘‘ اور لوک داستانوں کے سدا بہار ہیرو کے دیومالائی مقام پر فائز ہے۔ علی شیر خان کے جا نشینوں میں شیر شاہ، علی شاہ اور سلطان مراد جیسے افسانوی کردار ابھرتے رہے، لیکن اقتدار کا سورج نصف النہار کا سفر طے کرنے کے بعد خاندانی چپقلش کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر مائل بہ زوال رہا اور  ۱۸۴۰ء میں ڈوگرہ سردار زور آور سنگھ کے قدموں میں غروب ہو گیا۔ زورآور سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا راجہ احمد شاہ مقپون سکردو، خپلو، شگر، کریس، کھرمنگ، طولتی، پرکوتہ، روندو اور استور کا مطلق العنان اور طاقتور حکمران تھا، لیکن اس کی حکومت خاندانی اور درباری سازشوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔

  احمد شاہ مقپون کا بڑا بیٹا اور ولی عہد شاہ مراد نو عمری میں فوت ہو گیا۔شاہ مراد کے بعد اس کا بھائی محمد شاہ ولی عہدی کا امیدوار تھا۔احمد شاہ کی پہلی بیوی یعنی محمد شاہ کی والدہ فوت ہو چکی تھی اور دوسری بیوی دولت خاتون جو شگر کے راجہ کی بہن تھی، امرائے سلطنت پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر چکی تھی۔دولت خاتون نے محمد شاہ کے بجائے اپنے بیٹے محمد علی خان کے لیے فرمانِ  ولی عہدی حاصل کیا اور محمد شاہ کو وادیِ استور کا والی مقرر کر دیا۔ محمد شاہ اس فیصلے کو قدموں تلے روندتا ہوا لاہور پہنچا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ سے مدد کا طالب ہوا۔رنجیت سنگھ کشمیر اور  بلتستان کے معاملات جموں کے ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کے سپرد کر چکا تھا۔اس نے محمد شاہ کو سفارشی خط دے کر جموں بھیج دیا۔ گلاب سنگھ نے محمد شاہ کو اپنے کمانڈر زورآور سنگھ کے حوالے کر دیا۔جس نے محمد شاہ کی مدد کی آڑ میں سکردو کی تسخیر مکمل کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔

احمد شاہ مقپون کی بیٹی کھرمنگ کے راجہ علی شیر کی بیوی تھی۔ علی شیر نے احمد شاہ کی بیٹی کی مرضی کے خلاف دوسری شادی کی تو احمد شاہ نے کھرمنگ پر حملہ کر دیا۔ علی شیر مقابلے کی تاب نہ لا کر فرار ہو گیا اور جموں کے راجہ گلاب سنگھ سے پناہ طلب کی۔احمد شاہ کی بیٹی نے مداخلت کی اور اپنے باپ سے اپنے شوہر کے لیے معافی نامہ حاصل کر لیا۔ علی شیر کو اس کی حکومت مل گئی، لیکن احمد شاہ علی شیر کا اعتماد کھو بیٹھا۔علی شیر نے وزیر زورآور سنگھ کی درپردہ مدد کر کے احمد شاہ مقپون کی حکومت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

 خپلوکے راجہ مہدی علی خان کا احمد شاہ مقپون کے بھائی اور پرکوتہ کے راجہ غلام شاہ سے سرحدی تنازعہ چل رہا تھا۔ احمد شاہ نے اپنی فوج غلام شاہ کے بیٹے ابدال خان کی زیر قیادت خپلو پر حملے کے لیے روانہ کی۔مہدی علی خان نے اس فوج کو شکست دی اور ابدال خان کو گرفتار کر لیا۔احمد شاہ نے اپنے بھتیجے کی رہائی کے لیے اس کے وزن کے برابر طلائی سکّوں کی پیشکش کی لیکن مہدی خان نے اس پیشکش کو ٹھکرا کر ابدال خان کے سر میں میخ گاڑ دی اور وہ تڑپ تڑپ کر ہلاک ہو گیا۔احمد شاہ نے اس کا انتقام لینے کے لیے خود حملہ کیا۔ مہدی کو شکست فاش دے کر گرفتار کیا اور سکردو لے آیا جہاں اسے ایک تنگ و تاریک کنویں میں قید کر دیا گیا۔ ہموزن گندم اور نمک کی ایک روٹی روزانہ اس کی خوراک ٹھہری۔ مہدی علی خان چند ہفتوں میں اللہ کو پیارا ہو گیا۔احمد شاہ نے خپلو کو تسخیر کرنے کے بعد وہاں اپنا کھرپون (قلعہ دار یا گورنر) مقرر کر دیا لیکن خپلو کے عوام کے دل نہ جیت سکا۔ وزیر زور آور سنگھ نے سکردو پر حملہ کیا تو خپلو کے امراء بمع اپنی سپاہ زور آور سنگھ کے ہمرکاب تھے۔

ڈوگرہ حکومت نے ایک مرتبہ سکردو پر حملہ کیا تھا اور احمد شاہ مقپون نے انہیں عبرتناک شکست دی تھی۔مہاراجہ گلاب سنگھ احمد شاہ مقپون کی طاقت سے خائف تھا لیکن وہ حالات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھا۔

احمد شاہ مقپون کے بیٹے محمد شاہ، امرائے خپلو اور کھرمنگ کے راجہ علی شیر نے گلاب سنگھ کے وزیر زورآور سنگھ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تو اس نے سکردو پر حملے کا فیصلہ کر لیا۔ کھرمنگ کے راجہ علی شیر نے بہ ظاہر اپنی فوج سکردو کے دفاع کے لیے اپنے سسراحمد شاہ مقپون کو سونپ دی، لیکن بہ باطن سپاہیوں کو ہدایت کر دی گئی کہ ڈوگرہ فوج کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے بجائے اس کی ہر ممکن مدد کی جائے۔ کھرمنگ کے سپاہی مار آستین ثابت ہوئے اور ڈوگرہ فوج کو کھرپوچو کے دروازے پر لا کھڑا کیا۔احمد شاہ مقپون کھر پوچو میں قلعہ بند ہو گیا۔ محاصرہ طول پکڑ گیا تو کھرمنگ کے راجہ نے آخری وار کیا اور احمد شاہ کو یقین دلایا کہ زورآور سنگھ کا مقصد سکردو پر قبضہ نہیں بلکہ تبت پر حملے کے لیے احمد شاہ کی حمایت حاصل کرنا اور ڈوگرہ فوج کی رسد کے راستے کو محفوظ بنانا ہے۔ احمد شاہ زور آور سنگھ کے سلام کو حاضر ہو جائے تو اس کی حکومت برقرار رہے گی۔احمد شاہ اس چال میں آ گیا اور خود کو زور آور سنگھ کے حضور پیش کر دیا۔وزیر زور آور سنگھ نے اسے قید کیا، اس کے خزانے لوٹے اور سکردو کا انتظام و انصرام مکمل کرنے کے بعد اسے اپنے ہمراہ لداخ لے گیا۔۔ اور سکردو ڈوگرہ راج کے سائے تلے آ گیا۔

(۳)  ڈوگرہ راج  ۱۸۴۰ء  تا  ۱۹۴۸ء قائم رہا جسے  بلتستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ٍڈوگرہ راج کو اہل  بلتستان بیگار راج بھی کہتے ہیں کیونکہ ڈوگرہ راج میں  بلتستان کے کسی بھی باشندے کو کسی بھی وقت کسی بھی قسم کی بیگار کے لیے پکڑ لیا جاتا تھا اور ان کی حیثیت غلاموں سے بد تر تھی۔بے شمار ٹیکس لاگو کر کے  بلتستان کے باشندوں کو ظلم کی چکی میں اتناپیسا گیا کہ وہ دو وقت کے نانِ جویں کے لیے ترسنے لگے۔

برِّ صغیر کی آزادی کے وقت  بلتستان کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے زیرِ تسلط تھا۔

 ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو گلگت سکاؤٹس اور افوجِ کشمیر کے مسلمان افسروں اور سپاہیوں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا اور ڈوگرہ گورنر بریگیڈیئر  گھنسارا رام کو قید کر کے گلگت پر آزادی کا پرچم لہرا یا۔اس کے بعد انہوں نے سری نگر اور لداخ فتح کرنے کا عزم کیا، لیکن سکردو میں تعینات ڈوگرہ فوج کے لیفٹیننٹ کرنل شیر جنگ تھاپا نے شدید مزاحمت کی۔ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا ولن ہوتا ہے۔ کرنل شیر جنگ تھاپا  بلتستان کی جنگ آزادی کا ولن تھا، ڈوگرہ مؤرخین اسے سکردو کا ہیرو کہتے ہیں۔

 آزاد افواج نے فروری کے آخر میں سکردو کا محاصرہ کیا۔ وہ سکردو پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد کارگل، لداخ اور سری نگر کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے تھے لیکن شیر جنگ تھاپا دو سو پچاس سپاہیوں کی مٹھی بھر نفری اور جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن گیا اور چھ ماہ تک شدید مزاحمت کی۔

ستائیس جولائی کو آزاد افواج کو دو توپوں کی کمک موصول ہوئی جو پرزہ پرزہ کر کے مقامی رضاکاروں کے ذریعے بونجی سے سکردو لائی گئیں تھیں۔ سکردو میں انہیں دوبارہ جوڑا گیا اور گیارہ اگست کو ان توپوں نے آگ اگلنا شروع کی۔ کرنل تھاپا سکردو کی چھاؤنی میں محصور تھا اور خوراک کی شدید کمی کے باوجود جدید اسلحے کے بل بوتے پر محاصرے کو طول دے رہا تھا لیکن توپوں نے بمباری شروع کی تو اس کے پاس ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

کرنل شیر جنگ تھاپا نے کیپٹن گنگا سنگھ، کیپٹن پڑھدال سنگھ، لیفٹیننٹ اجیت سنگھ، چند جونیئر کمیشنڈ افسروں اور اکاون سپاہیوں کے ہمراہ چودہ اگست  ۱۹۴۸ء کی صبح آزاد افواج کے ایریا کمانڈر مطیع الملک کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ڈوگرہ فوج کے تقریباً دو سو سپاہی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جن میں سے ایک سو تیس کو گرفتار کر لیا گیا اور باقی دیوسائی کے راستے لداخ پہنچ گئے۔

کرنل شیر جنگ تھاپا مبینہ طور پر پاکستان کے پہلے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کا ذاتی دوست تھا اور اس کی سفارش پر بھارت پہنچے میں کامیاب ہوا۔ اگر کرنل تھاپا چھ ماہ تک غیر معمولی مزاحمت کا مظاہرہ نہ کرتا تو آزاد افواج کارگل،  لداخ اور سری نگر پر کئی ماہ پہلے قبضہ کر کے اپنا اقتدار مضبوط کر چکی ہوتیں اور بھارتی افواج کو کشمیر اور لداخ میں چڑیوں کے چگے ہوئے کھیت ملتے۔کرنل شیر جنگ تھاپا کے عزم و ہمت کے اعتراف میں بھارت کی حکومت نے اسے بھارت کا دوسرا بڑا فوجی اعزاز ’’مہا ویر چکر‘‘ عطا کیا۔

آزاد افواج نے چھبیس اگست ۱۹۴۸ء کو سکردو کے پولو گراؤنڈ میں اس جگہ پاکستان کا پرچم لہرایا جہاں اب مینار آزادی سر بلند ہے۔ سکردو کی فضا رات گئے تک پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔

حکومت پاکستان نے بلتستان کی جنگ آزادی کے ہیروؤں۔ کرنل پاشا (ٍہلالِ جرات)، کرنل حسن خان (ستارہ جرات)، میجر احسان علی (ستارہ جرأت) اور لیفٹیننٹ شاہ خان (ستارہ جرات  اور ستارہ امتیاز ملٹری )کو مختلف اعزازات سے نوازا جنہوں نے اسلحے اور تربیت یافتہ افراد کی شدید کمی کے با وجود اپنے سے کئی گنا بڑی اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ڈوگرہ فوج کو شکست دی اور شمالی علاقہ جات کو ڈوگرہ حکومت کے خونی پنجوں سے آزاد کرایا۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے مجاہدین کو کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملی اور وہ چھاپا مار کاروائیوں کے دوران ڈوگرہ فوج سے چھینے گئے ہتھیاروں سے گزارا کرتے رہے۔

(۴) پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شامل  بلتستان کو انتظامی طور پر سکردو اور گھانچے میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ضلع سکردو پانچ تحصیلوں ، سکردو، شگر، روندو، کھرمنگ اور گلتری پر مشتمل ہے۔ ضلع گھانچے میں خپلو اور مشہ بروم نامی تحصیلیں شامل ہیں۔آج کا  بلتستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور سکردو میں جدید شہری زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔

 مذہبی لحاظ سے  بلتستان کئی ادوار سے گزرا۔ ’’پون چھو‘‘ یا ’’بون چھو‘‘ یہاں کا قدیم ترین مذہب تھا۔یہ لوگ مظاہر قدرت اور بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ پون چھو کے بعد یہاں بدھ مت کا دور دورہ رہا۔ بوخا کے بیٹے ’’شیر شاہ‘‘ نے اسلام قبول کیا تو بقیہ مذاہب نے  بلتستان سے اپنا بوریا بستر گول کر لیا اور اب  بلتستان کے سو فیصد باشندے پاسدارانِ اسلام ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ بلتستان میں ساٹھ فیصد سے زائد لوگ شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، تقریباً پچیس فیصد نور بخشی ہیں ، پھر اہل حدیث ہیں ا ور سب سے کم تعداد میں سنی ہیں۔ سکردو شہر کی موجودہ آبادی تیس ہزار اور دیہی آبادی پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔

 ڈوگرہ دور کے تنگ و تاریک بازار کو نظر انداز کر دیا جائے تو سکردو کھلی ڈلی سڑکوں کا چھوٹا سا، صاف ستھرا اور سرسبز و شاداب شہر ہے۔ سکردو کے لوگ پھولوں سے پیار کرتے ہیں اور سکردو کے گھروں میں پائیں باغ کی روایت عام ہونے کی وجہ سے ہر گھر گل و گلزار نظر آتا ہے۔ سکردو میں پھل دار درختوں کی بہتات ہے، خوبانی و سیب کی چوری کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

سکردو سطح سمندر سے دو ہزار ایک سو ستانوے میٹر بلند ہے۔سردیوں میں سکردو کا درجہ حرارت منفی دس ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔گرمیوں کا اوسط درجہ حرارت سولہ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔اوسط بارش سترہ ملی میٹر سالانہ ریکارڈ کی گئی ہے۔سکردو کے مشرق میں کارگل،  مغرب میں گلگت، شمال میں چین کا صوبہ ژن ژیانگ اور جنوب میں مقبوضہ کشمیر ہے۔

سکردو کوہ نوردوں اور کوہ پیماؤں کی جنت کہلاتا ہے کیونکہ یہ آٹھ ہزار میٹر سے زائد بلند چار چوٹیوں ، چھ ہزار میٹر سے بلند تقریباً ایک سو پچاس چوٹیوں اور پانچ ہزار میٹر سے بلند بے شمار چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس منفرد اعزاز میں دنیا کا کوئی اور شہر اس کا ثانی نہیں۔سکردو دنیا کے بلند ترین چٹانی سلسلے ’’ ٹرانگو ٹاورز‘‘۔  قطبین کے بعد طویل ترین گلیشیئرز ’’بیافو، ہسپر اور سنو لیک‘‘ جیسے خوبصورت اور منفرد ٹریکس کا گیٹ وے ہے جوہر سال مئی سے اکتوبر تک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔سکردو کو فلک بوس چوٹیوں ، عمیق ترین گھاٹیوں ، جنت نظیر وادیوں ، نیلگوں جھیلوں ،  جھیلگوں ندی نالوں ، بہتے جھرنوں ، گنگناتے آبشاروں ، صحرائی ریگزاروں ، بہشت زار باغوں اور گھنے جنگلوں کا شہر ہونے کے علاوہ۔۔  سینما گھروں اور خواتین سے ’’مکمل پاک‘‘ اسلامی بازار رکھنے کا شرف حاصل ہے۔ یہ تمام خصوصیات پاکستان کے کسی اور شہر میں نہیں پائی جاتیں۔

سکردو سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، لیکن سکردو میں داستانوں کا لامحدود جہانِ حیرت آباد ہے جس کی ’’داستان نوردی ‘‘ کیے بغیرالف لیلائے سکردو کی ورق گردانی کا دعویٰ باطل محض ہے۔ ثقافتی، تاریخی اور لوک ورثے کی رنگینیوں اور نیرنگیوں سے لیس سکردو پاکستان کے کسی بھی شہر کی ہمسری کا  دعویٰ کر سکتا ہے۔ اس دعوے کو جھٹلانا زیادتی ہو گی۔

اگر یقیں نہیں تو اُٹھائیے تاریخ

ہمارا نام بصد آب و تاب لکھا ہے

 سکردو سے واپسی کا سفر شروع کرتے وقت بے پایاں اداسی کی کیفیت طاری تھی۔ ہوسٹل کے تقریباً تمام مکین ہمیں خدا حافظ کہنے بس سٹینڈ پر آئے تھے۔ الوداعی مصافحے کے وقت محسن شاہ صاحب نے ایک قیمتی نگینہ تحفتاً پیش کرتے ہوئے کہا:

 ’’ ڈاکٹر صاحب لگتا ہے آپ سے محبت ہو گئی ہے، اسی لیے بچھڑنے کا احساس بقیہ مہمانوں سے کچھ جدا ہے۔‘‘

اور میں زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجانے کے باوجود آنکھوں میں اتری ہوئی نمی چھپانے میں بری طرح ناکام ہو گیا۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                     ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول