صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
کچھ صحابیات
تدوین: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
حضرت ام سلیمؓ کے صبر و ہمت کا درس
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنھا ایک مشہور صحابیۂ رسولﷺ ہیں جب ان کے لڑکے عمیرؓ کا انتقال ہوا،تو حضرت ام سلیمؓ بہت غمگین ہوئیں، ظاہر ہے کہ ایسے موقع پر ایک ماں کو کتنا غم ہوا ہو گا۔ اور ایک ماں ہی اس غم کو اچھی طرح جانتی ہے، حضرتِ ام سلیمؓ اس دکھ و ملال کے موقع پر پورے صبر و ضبط کے ساتھ نوحہ و واویلہ کئے بغیر اپنے چہیتے لڑکے کو غسل دیا اور کفن وغیرہ دے کر چارپائی پر لٹا دیا۔
حضرت ام سلیم کے صبر و ہمت کا عظیم درس
شام جب ام سلیمؓ کے خاوند ابو طلحہؓ سفر سے گھر لوٹے تو حضرت ام سلیمؓ نے ان کے گھر آنے پر نہ کسی قسم کا واویلہ و نوحہ کیا اور نہ کسی قسم کے رنج و ملال کا اظہار کیا۔ بلکہ عام حالات میں ایک مسافرجب تھکا ماندہ گھر آتا ہے تو جس طرح اس کی خیر خیریت دریافت کی جاتی ہے او ر اس کے کھانے پینے او ر آرام کا انتظام کیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح سے حضرت ام سلیمؓ نے اپنے شوہرسے خیر خیریت دریافت کی اور کھانے پینے کا انتظام فرمایا اور آرام وغیرہ کا انتظام کیا، اس کے بعد حضرت ابو طلحہؓ نے حضرت ام سلیمؓ کے ساتھ رات بھی گزاری۔
انسان کو عطا کردہ نعمتیں اللہ کی امانت ہیں
اور جب صبح ہوئی تو حضرت ام سلیم انتہائی سنجیدگی کے ساتھ حضرت ابو طلحہؓ سے سوال کیا دیکھئے میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہتی ہوں ؟ حضرت ابو طلحہؓ نے کہا ہاں ضرور کیجئے ! حضرت ام سلیمؓ نے کہا اگر کوئی شخص ہمارے پاس کوئی امانت رکھوائے اور کچھ دن بعد ہم سے واپس طلب کر لے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ حضرت ابو طلحہؓ نے جواب دیا اسے تواس کے حوالہ کر دینا چاہئے ۔ اور یہی عقلمندی و انصاف کا تقاضہ ہے ۔ پھر حضرت ام سلیمؓ نے کہا دیکھو ہمارا جو لڑکا عمیرؓ تھا وہ اللہ کی امانت تھی اور اللہ نے اسے لے لی اور اللہ کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی چیز جس سے چاہے جب چاہے لے لے ۔ حضرت ابو طلحہؓ اپنی بیوی کے اس طرز عمل پر حیرت زدہ ہوئے کہ ایک عورت کو اللہ نے صبر و ضبط اورسنجیدگی کا ایک بڑا حصہ عطا کیا ہے اوراسے دین کی اتنی اعلیٰ سمجھ عطا فرمائی ہے ۔
یہ واقعہ اپنے دامن میں اتنا عظیم سبق رکھتا ہے کہ اس سے عبرت و موعظت حاصل کرنے والی ہر عورت ۳ طرح کے سبق موجود ہیں ۔
۱۔ شوہر کا پاس و لحاظ ۲۔ اپنی متاع عزیز کے کھونے پر صبر و استقامت ۳۔ شکوہ و گلہ سے پرہیز
شوہر کا پاس و لحاظ:اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ عورتیں شوہروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہیں اور اس کے لئے طرح طرح کے داؤ پیچ کا استعمال کرتی ہیں حالانکہ یہ بات بہت ہی سنگین ہے جس کے نتائج اکثر اوقات نقصان دہ ہوتے ہیں ۔ جو عورتیں اس طرح کی عادات و صفات رکھتی ہیں بھلاوہ کیسے اپنے شوہروں کے دکھ درد کا خیال رکھیں گی ،جب شام کو تھکا ماندہ گھر لوٹے تو اسے کس طرح سے دلی سکون و چین پہنچائیں گی۔
ایک بیوی بحیثیت بیوی اپنے گھر دار کا اپنے نفس و آبرو کا اور اپنے شوہر کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی خاطر مدارت میں کوتاہی کرتی ہے تو یقیناً ایسی عورت گناہ گار ہو گی اور اللہ کی رحمت سے دور ہو گی ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ بیوی اس طرح کی ہنس مکھ اورملنسار ہونی چاہئے کہ اگر شوہر اسے ایک نظر دیکھ لے تو دل باغ باغ ہو جائے اوراس کی ساری تھکان دور ہو جائے او ر شوہر کے اچھے برے کا خیال ہر حال میں رکھے خواہ اس کی حالت خوشی ومسرت کی ہو یا غم و ملال کی ۔ ایسا نہیں کہ خوشی و مسرت کے موقع پر تو شوہر کا ساتھ دے اور غم و رنج کے موقع پر شوہرکاساتھ چھوڑ دے۔
کھوئی ہوئی چیز پر صبر استقامت:عورتیں چھوٹی چھوٹی سی بات پرا ور معمولی سے نقصان پر صبر و ہمت کا دامن چھوڑ دیتی ہیں اور واویلہ اور نوحہ کرنے لگتی ہیں ۔ حالانکہ اسلام نے اس طرح کی حرکت سے باز رکھا ہے او ر یہ سبق دیا ہے کہ انسان کو جب کوئی اچھی چیز مل جائے تو اس پر خوش ہو اور اللہ کا شکر بجا لائے اور کوئی چیز گم ہو جائے تو اس پر زیادہ رنج و ملال کا اظہار نہ کرے ۔ حضرت ام سلیمؓ کو ہی دیکھئے کہ حضرت ام سلیمؓ نے اپنے لاڈلے اور پیارے بیٹے کے فوت ہونے پر کس طرح سے صبر ہمت کا دامن تھامے کر رکھا۔ اورکس طرح سے سنجیدگی و متانت کا اظہار کیا۔
٭٭٭