صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں



کچھ صحابہ

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

حضرت مصعب بن عمیرؓ

وہ مکہ میں سب سے زیادہ خوشبو پسند تھے۔ ناز و نعم میں پیدا ہوئے اور اسی فضا میں پرورش پا کر جوانی تک پہنچے۔ شاید مکہ کے نوجوانوں میں کسی کو اپنے والدین کی محبت و شفقت اس حد تک میسر نہ آئی ہو جس قدر حضرت مصعب بن عمیرؓ  کے حصّے میں آئی۔

قریش کا یہ قابل توجہ نوجوان گفتگو کو سب سے زیادہ دلچسپی اور انہماک سے سنتا۔اِسی لیے اپنی کم عمری کے باوجود مکی مجلسوں اور محفلوں کی زینت بن گیا۔ ہر مجلس کے شرکاء کی یہ شدید خواہش ہوتی کہ مصعبؓ ان کی محفل میں بیٹھے۔ وجہ یہ تھی کہ حسن و عقلمندی مصعبؓ کی وہ دو خوبیاں تھیں جو دِلوں اور دروں کو وا کر دیتی۔

یہ بھر پور و رعنا جوان، نازو نعمت کا پروردہ، مکہ کا نوخیز حسین اور اس کی مجلسوں اور محفلوں کا نگینہ...کیا یہ ممکن تھا کہ وہ ایمان و جاں سپاری کی تاریخی داستانوں میں سے ایک داستان بن جائے؟

ایک روز اس جوان نے بھی وہ بات سنی جو اہل مکہ، جناب محمد الامینﷺ کے بارے میں کہہ رہے تھے:’’ محمد کہتا ہے کہ اللہ نے اس کو بشیر و نذیر رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ واحد الاحد کی عبادت کی طرف بلانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔‘‘

ان دنوں اہل مکہ کو صبح و شام اس بات کے سوا کوئی اور غم تھا ہی نہیں، کرنے کو کوئی اور بات تھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ رسول ﷺ اور آپؓ کے دین کے متعلق محو گفتگو رہتے۔

آپؓ نے جو باتیں اہل مکہ سے سنیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ رسولﷺاور مسلمان قریش مکہ کی مشغولیات، فضولیات اور ایذا و تکالیف سے دُور کوہِ صفا کے اوپر ارقم بن ابی ارقم کے گھر جمع ہوتے ہیں۔ حضرت مصعبؓ  نے یہ سنا تو انتظار و تردّد کیے بغیر شام کو دارِ ارقم جا پہنچے۔ آپؓ  کی تمنائیں اور نگاہیں تو پہلے ہی وہاں پہنچ چکی تھیں۔ وہاں رسول ﷺ اپنے صحابہؓ سے ملتے، ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے اور انہیں نماز پڑھاتے تھے۔

حضرت مصعبؓ  ابھی جا کر بیٹھے ہی تھے کہ آیاتِ قرآن قلب رسولﷺسے لبِ رسول ﷺ پہ تاباں ہونا شروع ہو گئیں۔یہ آیات کانوں سے ٹکراتیں اور اپنا راستہ بناتی ہوئی دلوں میں اتر جاتیں۔یہاں تک کہ ابنِ عمیرؓ کے دل کی گہرائیوں میں بھی اتر گئیں۔ دل پر پڑا پردہ اپنی جگہ سے ہٹنا شروع ہو گیا۔

ادھر رسولﷺ نے اپنا دستِ شفقت و برکت آگے بڑھایا اور جذبات کی آتش سے بھڑکتے اور دھڑکتے دل کو چھوا تو سکون و راحت کی شعاعیں دل کی گہرائیوں میں اتر گئیں۔جو نوجوان ایمان و اسلام لے آیا تھا، وہ پلک جھپکنے میں اس طرح نمایاں ہوا کہ حکمت اس کی عمر سے دوگنا نظر آنے لگی۔ اس کے اندر عزم و ارادے کی وہ قوت بھی آ گئی جو وقت کا دھارا بدل ڈالنے پر قادر تھی۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول