صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سفر نامہ ترکی

مبشر نذیر

ڈاؤن لوڈ کریں : دو جلدوں میں

پہلی جلد                 ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

دوسری جلد     ورڈ فائل                                            ٹیکسٹ فائل

غزہ کی پٹی

بحیرہ روم کا ساحل نصف دائرے کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ یہاں مصر کی حدود ختم ہو کر فلسطین کی حدود شروع ہو رہی تھیں۔ جدید فلسطینی ریاست  دو حصوں پر مشتمل ہے۔  ایک حصہ دریائے اردن کا مغربی کنارہ ہے اور دوسرا حصہ غزہ کی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے۔  ان دونوں حصوں کے درمیان اسرائیل کا علاقہ ہے۔  یہاں پچھلے سال اسرائیلی افواج نے فلسطینی گوریلوں کے خلاف کاروائی کے دوران بہت سی خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان کے اس ظلم پر پوری مسلم دنیا سوائے احتجاج اور قنوت نازلہ پڑھنے کے اور کچھ نہ کر سکی تھی جس کا کچھ نتیجہ برآمد نہ ہوا تھا۔

میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا احتجاج اور دعائیں بے اثر کیوں ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم مظلوم ہیں۔ اگر ایسا ہے تو دنیا میں ہماری شنوائی کیوں نہیں ہے۔  اس دنیا کو چھوڑیے،  اللہ تعالی کے حضور امت مسلمہ کے لئے ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دعا سے پہلے تدبیر کا حکم دیا ہے۔  پانی ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف بہتا ہے۔  اگر کوئی کسان پانی کے چشمے سے اوپر کی جانب کھیت بنا لے اور مصلے بچھا کر بیٹھ کر دعا کرنے لگے کہ میرا کھیت ہرا بھرا ہو تو اس کا کھیت کبھی ہرا بھرا نہ ہو گا۔ وہ پوری دنیا کے سامنے احتجاج کرنے لگے کہ دیکھو میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔  دوسرے میرے حصے کا پانی لے کر جا رہے ہیں، مجھے کچھ نہیں مل رہا مگر اس کی بات کوئی نہ سنے گا۔

ہم نے بھی معاملہ کسان جیسا ہی کیا۔ پہلے ایک ہزار برس تک لمبی تان کر غفلت کی نیند سوتے رہے۔  غفلت اور عیش پرستی کے باعث اخلاقی اعتبار سے ہمارے معاشرے انحطاط کا شکار ہوتے چلے گئے۔ علم کے میدان میں ہماری دلچسپی کا اصل مرکز الہیاتی فلسفہ بن گیا اور سائنس و ٹیکنالوجی کو ہم نے کبھی اہمیت نہ دی۔ اقتصادیات کے میدان میں بھی ہمارے ہاں جمود رہا۔دوسری طرف اخلاقی انحطاط کے باعث ہمارے وجود کا ایک حصہ دوسرے کو کھانے لگا۔

اس عرصے کے دوران اہل مغرب نے علم، اقتصادیات اور اخلاقیات کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑنا شروع کیے اور صورت یہاں تک پہنچی کہ ہمارا اور ان کا فرق بڑھتا چلا گیا۔ انہوں نے پہلے ریل،  کار اور جہاز کے ذریعے دنیا کے فاصلے ختم کر دیے۔  اس کے بعد ابلاغ کی دنیا میں انقلاب برپا کر کے دنیا میں اپنے افکار پھیلانا شروع کیے۔  سائنسی ترقی کا لازمی نتیجہ اقتصادی ترقی نکلا۔ ان کے ہاں بہت سے انقلابات کے نتیجے میں اخلاقی شعور پیدا ہوا اور دوسروں کے لئے نہ سہی مگر کم از کم اپنی قوم کی حد تک یہ لوگ اچھے انسان بن گئے۔

اس عرصے میں جو کچھ ہوا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قدو قامت میں اہل مغرب کے سامنے ہم بونوں کی طرح چھوٹے رہ گئے۔  یہ لوگ اگرچہ اپنی اقوا م کے لئے اچھے تھے مگر دوسری اقوام کے لئے ان کا اخلاقی معیار بہت ہی پست تھا۔ چنانچہ یہ ہم پر چڑھ دوڑے اور نوآبادیاتی نظام کی شکل میں انہوں نے ایشیا، افریقہ، امریکہ اور آسٹریلیا کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ شروع کر دی۔اس معاملے نے اقتصادی اعتبار سے ہمیں بہت ہی پستی میں دھکیل دیا۔ معاش اور اخلاق کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد کے مطابق غربت کفر تک پہنچا دیتی ہے۔  چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہم اخلاقی اعتبار سے پست سے پست ہوتے چلے گئے۔

عیسائی دنیا کو چھوڑ کر اگر مسلمانوں  اور یہودیوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس چھوٹی سی قوم سے بھی بہت پیچھے ہیں۔ دنیا میں ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان ہیں جبکہ یہود کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے۔  گویا دنیا میں ہر یہودی کے مقابلے میں 100 مسلمان موجود ہیں۔ یہ یہودی کوئی مذہبی گروہ نہیں ہے بلکہ ایک قومی اور نسلی گروہ ہے۔   یہ ڈیڑھ کروڑ یہودی سوا ارب مسلمانوں کے مقابلے میں انتہائی طاقت ور ہیں۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔

سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جدید دور کی تشکیل نو کے پیچھے یہود کے اعلی ترین دماغوں کا کردار ہے۔  فزکس کے میدان میں آئن اسٹائن، نفسیات کے میدان میں سگمنڈ فرائیڈ، معاشیات کے میدان میں پال سیموئیل سن اور ملٹن فرائیڈمین جیسے ماہرین ان کے ہاں پائے جاتے ہیں اور اس درجے کا ایک بھی عالم ہمارے ہاں نہیں ہے۔  میڈیکل کی دنیا کی بڑی بڑی ایجادات یہود ہی نے کی ہیں۔ پچھلے سو برس کے عرصے میں یہودی اہل علم نے 180 نوبل پرائز جیتے ہیں جبکہ مسلمانوں میں ان کی تعداد صرف 3 ہے۔  یہ حضرات بھی مسلم دنیا میں عتاب کا شکار ہی رہے۔ دنیا کی دس بڑی کمپنیوں اور برانڈز کے اکثریتی مالک یہودی ہیں۔ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں بااثر سیاستدان یہودی ہیں۔ دنیا کے میڈیا پر یہودی چھائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بڑے خیراتی ادارے تک یہودی چلا رہے ہیں۔ یہ تو ان کے اہل علم کا حال ہے،  ان کے عام لوگوں میں تعلیم کا تناسب 100فیصد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ محض 40 فیصد ہے۔  اس تعلیم کا معیار بھی نہایت ہی پست ہے۔   یہودی اپنے مذہب کو پھیلانا پسند نہیں کرتے ورنہ شاید دنیا کا سب سے بڑا تبلیغی نیٹ ورک بھی انہی کا ہوتا۔

ان اعداد و شمار کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں ہے بلکہ صورتحال کا حقیقی تجزیہ کرنا ہے۔  ہمارے اہل دانش کو اپنی کمزوری کا احساس بہت پہلے ہو چکا تھا۔ انہوں نے اس صورتحال کا درست تجزیہ نہیں کیا اور مسئلے کا حل یہ تجویز کیا کہ ہم جنگ کے ذریعے ان پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالی کی چہیتی قوم ہیں،  ہم پر ظلم ہوا ہے اس وجہ سے اللہ تعالی کی مدد ہمارے شامل حال ہو گی۔ بس پھر کیا تھا، مسلمان پوری دنیا میں اہل مغرب کے خلاف صف آرا ہو گئے۔

یہ حل بالکل ایسا ہی تھا کہ کسی یتیم بچے کے گھر کوئی بدمعاش گروہ آ گھسے اور اس پر قبضہ کر کے بیٹھ جائے۔  اس بچے کے نام نہاد خیر خواہ اس کی پیٹھ ٹھونک کر اس کے ہاتھ میں ایک چاقو دیں اور اس بدمعاش گروہ کے مقابلے پر اس بچے کو آمادہ کر دیں۔ ہمارے ساتھ یہی ہوا۔ ہمارے لیڈروں نے ہماری پیٹھ ٹھونک کر ہمیں اس مقابلے پر مجبور کر دیا۔

یقیناً اللہ تعالی کا پسندیدہ دین اسلام ہے جس سے اپنے اخلاقی انحطاط کے باعث ہم کوسوں دور جا چکے تھے۔  سائنس اور اقتصادیات کے میدانوں میں ہم بہت پیچھے تھے۔  دوسرے تو کیا،  ہم اپنی قوم کے لئے مخلص نہ تھے۔  چنانچہ ہم نے دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعا کے ساتھ اس میدان میں ان کا مقابلہ شروع کیا جس میں مقابلے کے ہم اہل نہ تھے۔  اللہ تعالی کی مدد تو کیا آتی، ہمیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔  اس مقابلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ دشمن کو تو ہم شاید ہی کوئی بڑا نقصان پہنچا سکتے،  ہمارے اپنے معاشرے تباہی کا شکار ہوتے چلے گئے۔  چنانچہ آج امریکہ اور اسرائیل اپنی جگہ موجود ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس صومالیہ، فلسطین، عراق، افغانستان اور پاکستان کی حالت پوری دنیا کے سامنے ہے۔

اگر ہمیں مقابلہ کرنا ہی ہے تو اس کے لئے میدان کچھ اور ہے۔  اس سلسلے میں ہمیں چین سے سبق سیکھنا چاہیے۔  انہوں نے دنیا کے ہر جھگڑے سے خود کو علیحدہ رکھ کر اپنی پوری توجہ علمی اور اخلاقی اعتبار سے خود کو بہتر بنانے پر دی ہوئی ہے۔  اسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے جاپان، کوریا، سنگاپور اور ملائشیا جیسے ممالک ترقی یافتہ کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم علم کے میدان میں اہل مغرب کا مقابلہ کریں۔ اگر ان کے ہاں دس اہل علم پیدا ہوتے ہیں تو ہم بیس اہل علم پیدا کر کے دکھائیں۔ اگر وہ اپنے ہاں غربت کا خاتمہ دس سال میں کر سکتے ہیں تو ہم پانچ سال میں ایسا کر کے دکھائیں۔ اگر وہ سو ایجادات کرتے ہیں تو ہم دو سو ایسی ایجادات کر کے اپنی علمی برتری ثابت کریں۔ اگر انہوں نے کرپشن سے پاک معاشرہ پچاس سال میں پیدا کیا ہے تو ہم ایسا پچیس سال میں کر کے دکھائیں۔ اگر وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے ایک ارب خرچ کرتے ہیں تو ہم دو ارب اس کام میں خرچ کریں۔ اگر یہود اپنے دین کی دعوت دوسروں کو نہیں پہنچاتے تو ہم اللہ کے پیغام کو اس کی حقیقی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جس دن ہم نے ایسا کر لیا، اس دن دنیا میں بھی ہماری بات سنی جائے گی اور اللہ تعالی بھی ہماری دعا کو قبول کرے گا۔

الحمد للہ مسلم دنیا میں اس بات کا احساس پید  ا ہو چکا ہے۔  بہت سے لوگ ہمارے ہاں اب تخریب کو چھوڑ کر تعمیر کی طرف آ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی غربت کے خاتمے،  علم کے فروغ، اور اخلاقی تربیت کا کام شروع ہو چکا ہے۔  اب ضرورت اس کو آگے بڑھانے کی ہے۔  تخریب کے راستے پر دو سو سال کی ناکامیوں کے بعد ہم نے یہ سیکھ لیا ہے کہ اس راستے پر چل کر ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔  ہمارے ہاں ان لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی واقعتاً ایک برائی ہی ہے اور اس برائی سے نیکی کا کوئی مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ہم نے الحمد للہ تعمیر کا راستہ اختیار لیا ہے اور اب انشاء اللہ اب تعمیر کے راستے پر چل کر محض تیس چالیس برس میں ہم نتائج دیکھ لیں گے۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

پہلی جلد                 ورڈ فائل                                             ٹیکسٹ فائل

دوسری جلد     ورڈ فائل                                            ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول