صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


سفر ہے شرط۔۔۔۔

ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

  

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

کافر کوٹ کے کھنڈر



ماضی میں وسطی ایشیا سے تجارتی قافلے اور جنگجو حملہ آور درہ گومل کے راستے برصغیر میں داخل ہوتے رہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریائے سندھ کے کنارے یہ لوگ پڑاؤ ڈالتے۔ دریائے سندھ ہی کے ذریعے تجارتی مال کشتیوں کے ذریعے مختلف اطراف روانہ کیا جاتا۔ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد ان تجارتی قافلوں اور جنگجو حملہ آوروں کی اگلی منزل ملتان ہوا کرتی تھی۔ ملتان کے بعد پاکپتن، دیپال پور، لاہور اور دہلی کا رخ کیا جاتا۔ عموماً ملتان کے قریب ہی ان حملہ آوروں کو روک دیا جاتا۔

دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں ہے۔ ان پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دریائے سندھ کے کنارے قدیمی قلعے، عبادت گاہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں۔ ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خاں شہر سے ۹۳/ میل شمال کی طرف خیسور پہاڑ کی چوٹی پر جو کافرکوٹ کے نام سے مشہور ہے، واقع ہیں۔ یہاں سے چند میل کے فاصلے پر دریائے کرم اور سندھ آپس میں ملتے ہیں۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کافرکوٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا۔ جس پہاڑ پر یہ کھنڈر ہیں اس کے مشرق کی جانب آبی گزرگاہ ہے۔ آج کافرکوٹ کے تباہ شدہ کھنڈر کو نوکیلے تراشیدہ پتھروں اور خاردار جھاڑیوں نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثارِ قدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ دانش ور محمد شریف کے مطابق مسلمان اس قلعہ کو کافرکوٹ کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ ہندو اسے راجہ بل کا قلعہ کہتے تھے۔

   ان مندروں کی تعداد سات کے لگ بھگ ہے۔ خوبصورت تراشیدہ پتھروں سے تعمیر کیے گئے یہ مندر ماضی میں بہت خوبصورت شاندار تھے جو عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں۔ قدیمی دور کے یہ محل اور مندر راجہ بل نے تعمیر کروائے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک قلعہ ’نند، ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔

سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملہ میں راجہ نندپال کو شکست دی تھی۔ قیاس یہی ہے کہ کافر کوٹ کا قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ کافرکوٹ کے قلعہ کے اندر پانی کا تالاب بھی تھا بارش کا پانی تالاب میں اکٹھا ہو جاتا تھا۔ تالاب کے گرد و نواح پوجا پاٹ کے لیے مندر بھی تھے۔ محلات اور فصیل کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بڑا مندر بائیں ہاتھ پر ہے، درمیان میں راستہ ہے جو بڑی عمارت کا حصہ ہیں۔ جیل خانے کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ کافرکوٹ کے کھنڈرات کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں ہیں جبکہ مشرق کی طرف آبی گزرگاہ ہے۔ ماضی میں قلعے یا حکمرانوں کے محل پہاڑوں پر تعمیر کیے جاتے تاکہ وہ دشمنوں اور حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکیں۔ کافرکوٹ کے مندروں کی چہار اطراف ماہر کاریگروں نے خوبصورت ڈیزائن بنائے ہیں۔ مورتیوں اور روشنی کے لیے طاقچے بھی بنائے گئے ہیں۔ پہاڑی پر چڑھنے کے لیے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں۔ چار بڑے تین چھوٹے یہ مندر چونے کے مقامی پتھر کنجور کی آمیزش سے بنائے گئے ہیں۔ موسم یا بارش کا اثر ان پتھروں پر نہیں ہوتا۔ یہ مندر مخروطی شکل کے ہیں۔ ان کی بیرونی سطح کچھ زیادہ مزیّن ہے۔ یہ آرائش بہت پیچیدہ اور باریک ہے جس پر سورج مکھی کے پھول بنے ہوئے ہیں۔ یہ تمام مندر تباہ شدہ قلعے کے اندر ہیں۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا ہے۔

کافرکوٹ شہر کے اردگرد پتھر کی مضبوط فصیل تھی جس میں حفاظتی مورچے بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندو راجہ بل کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت بلوٹ تھا۔ اسے بل کوٹ یا بلوٹ کہا جاتا ہے۔ بل کا چھوٹا بھائی ٹل اوٹ کا بانی تھا۔ تیسرا بھائی اکلوٹ تھا جو بنوں کے نزدیک واقع آکرہ کا بانی تھا۔ آکرہ کا شہر سرسبزوشاداب اور خوشحال تھا جو سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ آثارِ قدیمہ کافرکوٹ کے کھنڈرات پر خصوصی توجہ دے، ان تباہ شدہ قلعوں کے اسرار سے پردہ اٹھائے، ان پر تحقیق کر کے نئی نسل کو پرانے تہذیب و تمدن سے آشنا کرائے۔ وہ تہذیبیں جنہیں عالی شان محلات اور عظیم الشان قلعوں پر ناز تھا آج سب کی سب ڈھیر ہو چکی ہیں ، جہاں کبھی زندگی اپنی ساری آسائشوں اور زیبائشوں کے ساتھ محوِ رقص تھی آج وہاں خاک اُڑ رہی ہے۔ یہی حالت پوٹھوار کے علاقہ میں قلعہ دان گلی، قلعہ پھروالہ، قلعہ سنگھی، قلعہ روات کے علاوہ کوہستان نمک کے علاقے میں قلعہ کسک، ملوٹ، راج کٹاس، شیوگنگا اور ماڑی کے مندروں کی ہے۔ ان تاریخی قدیم عمارتوں پر محکمہ آثارِ قدیمہ خصوصی توجہ دے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فا

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول