صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


سفر ہے شرط

فرزانہ اعجاز 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

اقتباس

گیارہ دسمبر کو لشتم پشتم امریکہ سے واپس تو آ گئے، تھکے ہارے تو خوب تھے مگر ارادہ تھا کہ لکھنؤ بھی جانا ہے، کیونکہ معلوم ہوا تھا کہ کراچی سے ہماری پھوپھو معہ اپنی ایک بیٹی سیما کے ستائیس سال بعد لکھنؤ آ رہی ہیں، ہماری سب سے چھوٹی بہن شاہانہ بھی سترہ سال بعد اپنے جرنلسٹ بیٹے عمیر علوی کے ساتھ لکھنؤ آ رہی ہے، اس کی شدید خواہش تھی کہ 'ایک بار ہم پانچوں بھائی بہن ابو کے گھر مین جمع ہوں اور بڑے دالان میں بچھے تخت پر بہت بڑے ' گاؤ تکئے 'کو درمیان میں رکھ کر ویسے ہی لیٹیں جیسے بچپن میں لیٹا کرتے تھے، گرمی کی دوپہر یا برسات کی کالی کالی 'بھیگی بھیگی راتوں میں، جب گرمی میں بڑے دالان کے تینوں دروں میں 'ٹاٹ ' کے موٹے موٹے پردے ڈالے جاتے اور محض ایک 'ٹیبل فین'یا بعد کو ایک عدد ' چھت کے پنکھے کے سہارے اپنی اپنی ' جان ناتواں' کو'آرام 'پہنچانے کی سعیِ لاحاصل کیا کرتے تھے، اس درمیان اگر 'نکل بھاگنے' کی کوشش کرتے تھے تو اپنے مخصوص پلنگ پر 'خراٹے لیکر سوتی ہوئی دادی،ہماری بی اماں کو نہ معلوم کیسے خبر ہو جاتی تھی اور وہ ننداسی آواز میں ' ہوں' کہتیں اور کہتی تھیں ' ہم جاگ رہے ہیں اور ابھی پانچ نہیں بجے ہیں '۔ 'اٹھنے والا' وہیں 'ڈھیر ' ہو جاتا اور جھوٹ موٹ کے خراٹے لینے لگتا تھا، شائق بھیا کی عادت تھی کہ وہ' دنیا جہان کی خبریں سننے کے لئے ننھے سے ٹرانسسسٹر کے کان اینٹھا کرتے اور اس تیزی سے سوئی گھماتے کہ 'سوئی 'ڈھیلی 'ہو جاتی، ہم حسرت سے اسی انتظار میں رہتے کہ ' بھیا، ہم کو ٹرانسسسٹر دیں تو ہم 'وودھ بھارتی 'سنیں،مگر شائق بھیا اپنی ازلی معصومیت کی وجہ سے 'جیت ' جایا کرتے اور ہم ہارا ہی کرتے، 'بھیا' نے ہم کو جاتے جاتے بھی 'ہرا' دیا اور جھٹ سے، بے وقت اللہ میاں کے گھر چلے گئے۔ گھر کے لوگ موتیوں کی کسی ٹوٹی ہوئی ' لڑی' کے دانوں کی طرح 'ادھر ادھر 'بکھر گئے، دادا، دادی، امی، ابو، بھیا، چچا،سب اللہ میاں کے گھر چلے گئے، جو بچے وہ 'اللہ میاں کی بنائی ہوئی زمین' پر دور دور تک 'لڑھکتے' چلے گئے۔

اب ایک بار پھر جمع ہونے کا تصور بہت 'جذباتی اور خوبصورت تھا۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ کراچی سے آنے والے ' اتنی آسانی ' سے کیسے آ جا سکتے ہیں، ویزے کی کاروائی ہی بڑی'ہوش ربا' ہوتی ہے، شاہانہ، ہماری بہن بار بار ' ڈپریشن' میں چلی جاتی اور فون کر کر کے رویا کرتی تھی، بہت بہت کوششوں کے بعد ویزے ملے مگر پندرہ دسمبر کے بجائے پندرہ جنوری کو شاہانہ معہ اپنے بیٹے کے لکھنؤ آ سکیں، پھوپھو اور سیما اور بھی بعد میں آئیں، گیارہ دسمبر کو ہماری بہن دردانہ بھی ہمارے ساتھ شکاگو سے آئیں تھیں اور مقررہ پروگرام کے مطابق بارہ دسمبر کو ہمارے چھوٹے بھائی فایق کی فیملی کے ساتھ لکھنؤ چلی گئی تھیں تاکہ شاہانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رہ سکیں، یہاں ہم خدا معلوم کس وجہ سے ایسا سخت بیمار پڑے کہ اسپتال پہنچ گئے،شاید 'تھکن 'لے ڈوبی۔ خیر' بقول کسی شاعر ' آج ہم  بچ گئے ڈوبتے ڈوبتے '۔ پتہ چلا کہ ' نبض تیز تیز چل رہی تھی اور دل ' دھڑکنے ' سے بھی انکاری تھا،

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول