صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


۔۔۔سفر میں ہے

فرید مرزا

سفر نامہ سعودی عرب ۔ مصر ۔ یورپ
کنیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکہ 

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

(۱)

منگل ۱۷/اگسٹ ۱۹۷۶ء

ریٹائرنگ روم۔ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن

۱۹۷۳ء میں بیوی اور میں نے مل کر ۸!مئی سے ۲۱/ جولائی تک کئی ممالک کا سفر کیا تھا۔ وہ ممالک افغانستان۔ ایران۔ ترکی۔ لبنان۔ شام اور عراق تھے۔ گو ہم اسکندریہ (مصر) سے گزرے تھے لیکن قاہرہ نہیں جا سکے تھے۔ بیوی کی خواہش مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ بھی جانے کی تھی۔ ہم نے بیروت سے ہوائی جہاز کا واپسی کا ٹک لے کر وہاں جانے کا ارادہ بھی کیا تھا۔ لیکن اس وقت سعودی عرب کافی گرم تھا اس لئے ارادہ ملتوی کر دیا گیا۔

تقریباً ایک سال قبل ہی سے ہم لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ سعودی عرب ، یورپ اور امریکہ کا سفر کیا جائے۔ ہمارا ایک پولٹری فارم ہے ہر شش ماہ میں ہم ایک دن کے مرغی کے بچوں کی بڑی تعداد خرید کر انڈوں کی متواتر اور مقررہ سپلائی برقرار رکھتے تھے۔ سابق دو شش ماہ سے ہم نے مرغیوں کے بچے نہیں خریدے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ پرانی مرغیوں کو جب چاہا بیچ کر سفر پر چلے جائیں۔ نئی مرغیوں کو بیچنے سے کافی نقصان ہوتا ہے۔

جب تیسری بچی نے جس کی ابھی شادی ہونی ہے یہ تصفیہ کیا کہ وہ Dietician کا نو ماہ کا کورس بمبئی میں مکمل کرے گی تو ہم نے بھی اپنا ارادہ باہر نکلنے کا پکا کر لیا۔ اس دوران پاکستان اور ہندوستان کے سفارتی تعلقات بحال ہو گئے اور ۱۹۶۵ء سے جو ٹرینوں کی آمد ورفت رک گئی تھی وہ بھی چالو ہو گئی۔ ہم نے خیال کیا اب پاکستان کا ویزا آسانی سے مل جائے گا اس لئے ہم نے یہ پروگرام بنایا کہ پہلے پاکستان جائیں گے اور وہاں سے دوہا (قطر) بحرین و دہران (عربی میں ظہران لکھتے ہیں لیکن تلفظ دہران ہی ہے ) ہوتے ہوئے جدہ جائیں اور عمرہ کر کے قاہرہ چلے جائیں اور پھر یورپ کا سفر کرتے ہوئے کینیڈا اور یو ایس اے چلے جائیں۔ لیکن حیدرآباد ہی میں پتہ چل گیاکہ پاکستانی سفارت خانہ راست ویزا نہیں دے رہا ہے۔ بلکہ درخواستیں لیکر اسلام آباد بھیج رہا ہے اور وہاں سے منظوری آنے پر ویزا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طول عمل ہے اس طرح ویزا حاصل کرنے میں کئی ماہ کی مدت درکار ہے۔ کینیڈا کے ہائی کمشنر آفس کو گئے تو وہاں یہ معلوم ہوا کہ چونکہ ہندوستان کا کامن ویلتھ دولت مشترکہ میں شریک ہے لہذا اس کے شہریوں کو کینیڈا جانے کیلئے ویزا کی ضرورت نہیں البتہ ان کے پاس صحت کے کاغذات مکمل ہونے چاہئیں اور کینیڈا میں امیگریشن آفیسر کو یہ بتانا پڑے گا کہ وہاں رہنے کیلئے اور وہاں سے نکلنے کے لئے کافی پیے پیسے ہیں۔ اگر وہاں ہمارا کوئی بچہ وغیرہ ہو تو اس کو اسپانسر شپ کے کاغذات مکمل کرنے چاہئیں۔ سعودی عرب کی سفارت میں یہ کہا گیا کہ ہمارے پاس سعودی عرب سے نکلنے کا ٹکٹ ہونا چاہئے۔ اس طرح ابتدائی مشکلات ہر طرف دکھائی دیتی ہیں کل ہوائی جہازوں کے دفاتر کے چکر لگانے کا خیال ہے۔

۱۵/اگسٹ کی شام کو ہم حیدرآباد سے نکلے چونکہ برت محفوظ کر لئے گئے تھے سفر آرام دہ رہا۔ ۱۶/اگسٹ کو بیوی ٹرین میں پائخانہ میں گئیں۔ اس خیال سے دستی گھڑی پر پانی کے چھینے نہ پڑیں اس کو اتار کر اپنی سامنے والی کھڑکی میں رکھ دیا۔ جب دو گھنٹے کے بعد خیال آیا تو وہاں نہیں تھی۔ کچھ مسافرین سے پوچھا بھی لیکن پتہ نہیں چلا۔

پہلے حیدرآباد سے جو ٹرین نکلتی تھی وہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن تک آتی تھی۔ لیکن اب اس کا سفر حضرت نظام الدین ہی پر ختم کر دیا جا رہا ہے۔ وہاں سے دوسری ٹرین سے نئی دہلی اسٹیشن آنا پڑتا ہے۔ اس میں کافی دقت ہوتی ہے۔ ہم کو ایک گھنٹہ تک انتظار کرنے کے بعد دادر سے امرتسر جانے والی ٹرین ملی۔ وہ ٹرین پہلے ہی سے بھری ہوئی تھی۔ اس میں حیدرآباد سے آئی ہوئی اکسپرس کے پورے مسافرین کو بیٹھنا تھا۔ دقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بدقت تمام ٹرین میں گھسنا پڑا اور کھڑے ہو کر ہی یہ سفر کاٹنا پڑا۔ پاسنجروں کو تکلیف سے بچانے کیلئے حیدرآباد کی اکسپرس کا نئی دہلی تک لانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

چہارشنبہ ۱۸/ اگست

ریٹائرنگ روم نمبر ۶۱

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن

گذشتہ شب اور صبح میں بھی بارش ہوتی رہی۔ کبھی بڑھ جاتی اور کبھی دھیمی ہو جاتی۔ آج یہاں جنم اشٹمی کی چھٹی تھی۔ بنک اور کئی سرکاری ادارے بند پڑے تھے۔ پھر بھی ہم پہلے ایر انڈیا کے آفس کو گئے اور وہاں بتایا کہ کن مقامات کو ہم جانا چاہتے ہیں۔ اس پر کاونٹر والے نوجوان سکھ نے کہا کہ اس طرح کے ٹکٹ پر کافی پیسے لگیں گے۔ میں نے پوچھا کہ کویت ایر اور ایجپٹ ایر کچھ رعایت کرتے ہیں تو انھوں نے از راہ کرم مجھے ان دونوں ایرلائنس کا پتہ اور اس کے ساتھ سیرین عربین ایر لائنس کا پتہ بھی بتا دیا۔ آج کل ہم ایسے بیرونی ممالک کے مسافرین سے مل رہے ہیں جو پیٹھ پر اپنا سامان لاد کر کئی ممالک کا سفر انتہائی کفایت شعاری سے کرتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک نے مجھ سے کہا:

Students Travel Information Centre Hotel Imperial Janpath Road (Phone 344965-345938-3447897) N. Delhi, Director Subash Goyal

کے پاس چلا جاؤں وہ ضرور میری مدد کریں گے۔ ان کے پاس جا کر بہت دیر تک بیٹھا رہا۔ انھوں نے مختلف ایرلائنس سے ربط پیدا کر کے ہمارے زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی۔ مگر پتہ چلا کہ جس راستہ پر ہم سفر کرنا چاہتے ہیں اس کیلئے ہم کو ایر انڈیا ہی سے ٹکٹ خریدنے میں سہولت ہو گی۔ پھر بھی انہوں نے کہا کہ ہم کل دس ساڑے دس بجے تک آ جائیں مختلف ایرلائنس سے مزید گفتگو کر کے ہم کو ہر ایک کا نچوڑ دیں گے۔ جاتے وقت بھی  ہم ان کی آفس کو پیدل گئے تھے واپس بھی ہم چلتے ہوئے ہی آئے کافی تھک گئے تھے۔ پھر بھی کچھ کپڑے دھو لئے۔


Bright Guest House

Pahargang - N-Delhi

Tel No 270031

جمعرات۔ ۱۹/اگسٹ ۱۹۷۶ء

عام طور پر ریلوے ریٹائرنگ روم میں صرف ۲۴ گھنٹے ہی ٹھیرنے دیتے ہیں۔ ہم کو چاہئے تھا کہ ۱۸/کی صبح ہی کو کمرہ خالی کر دیتے۔ لیکن ہم پر کام پر نکل گئے تھے اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس ایر کنڈیشن روم کیلئے کوئی منتظر بھی نہیں تھا اس لئے ہم کو ایک دن کی توسیع مل گئی۔ جب ہم آج مزید توسیع کے لئے کمرہ دینے والے کلرک کے پاس گئے تو اس نے بغیر دیکھے ہی کہ کوئی منتظر ہے یا نہیں یہ کہ دیا کہ کوئی مزید توسیع نہیں کی جا سکتی۔ چونکہ ہم خود ایک دن زیادہ رہ چکے تھے ہم نے ڈپٹی اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ سے اس خصوص میں مزید دریافت کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ گیسٹ ہاوس بھی ریلوے اسٹیشن سے قریب ہے۔ اور کرایہ بھی زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم یہاں چلے آئے۔ آج صبح بھی کافی بارش ہوتی رہی گیارہ بجے ریلوے ریفریشمنٹ روم میں دوپہر کا کھانا کھا کر ہم دونوں پہلے کویت ایر ویز جن پتھ ہوٹل گئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ ہماری روٹ یعنی ہم جس راستہ سے لندن جانا چاہتے ہیں اس کیلئے کویت ایرویز سے ٹکٹ لینے میں ہمارے لئے کوئی سہولت نہیں اس لئے ہم پھر امپرئیل ہوٹل چلے آئے۔ گوئیل صاحب نے پھر دو تین جگہ ٹیلی فون گھمایا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ایر انڈیا ہی سے ٹکٹ لینا مناسب ہے چنانچہ ہم نے فرسٹ ٹراویل اسکیم کے فارم پر کر کے دستخط کر دی اور گوئیل صاحب کو پاسپورٹ بھی حوالہ کر دیا۔ امید ہے کہ کل F.T.S منظور ہو جائے گا اور شاید کل ہی ہمیں ٹکٹ بھی مل جائے۔ پرسوں جا کر سعودی عرب کا ویزا لینے کی کوشش کریں گے۔ جاتے وقت آٹو (ا سکوٹر) میں بیٹھ کر گئے تھے۔ واپسی میں پیدل ہی چلے آئے۔ چونکہ دوپہر کا کھانا اول وقت کھایا تھا مغرب سے پہلے ہی بھوک لگنے لگی۔ ریلوے کے ویجٹیرین ریفریشمنٹ روم میں کھانا کھا کر اپنی ہوٹل کو آ گئے۔ کھانا ٹھیک تھا۔ ایک تھالی کی قیمت جس میں پوری ، چاول اور دو ترکاری کے سالن اور بوندی کا میٹھا لڈو تھا تین روپیہ بارہ پیسے تھی۔ کھانے کے بعد ہم کو انتظامیہ کی طرف سے ایک پرچہ دیا گیا جس میں پوچھا گیا تھا کہ کھانا کیسا تھا ، خدمت ملنسار تھی یا نہیں۔ عام صفائی اور برتنوں کی صفائی کیسی تھی۔ کھانے کے تعلق سے ہم نے لکھا کہ ٹھیک تھا سر روس عام صفائی کے تعلق سے لکھا کہ اچھی تھی۔

شام میں جب ریڈیو سنا تو آل انڈیا ریڈیو بھوپال نے افسوس کے ساتھ اعلان کیا کہ اردو کے مشہور شاعر جان نثار اختر کا حرکت قلب بند ہو جانے سے اچانک انتقال ہو گیا۔ سن کر بہت افسوس ہوا۔ حال ہی میں ان کو دو تین مرتبہ میں نے حیدرآباد میں سنا تھا۔ کلام بڑھیا اور سنانے کا انداز اچھا تھا۔

رات میں بیٹھے تھے کہ سڑک پر کچھ شور و غوغا کی آواز آنے لگی۔ پھر آواز بڑھتی گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جھگڑا ہو رہا ہے۔ ہمارے گیسٹ ہاوس کے کچھ نوجوان لوگ پھاند کر سامنے کی چھت پر گئے۔ اور باہر کیا ہنگامہ ہو رہا ہے دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر میں پتھر پھینکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ دوکانوں کے شٹرس گرنے لگے۔ معلوم ہوا کہ پولیس پہونچ گئی اور مجمع ہماری ہوٹل کی طرف آنے لگا۔ تماشہ بیں ہوٹل میں آ گئے اور کمروں کے دروازے بند کرنے لگے۔ ہم نے بھی اپنے کمرے کا دروازہ اور کھڑکیاں بند کر لیں اور کچھ سامان کو پلنگوں کے نیچے ڈھکیل دیا کہ اگر لوٹ مار ہو تو کم از کم وہ سامان نظر سے اوجھل رہے دوسروں کی طرح کمرے کی لائٹ بند کر دی اور خاموش بیٹھ گئے۔ مجمع کے کچھ لوگ ہماری ہوٹل میں بھی گھسے۔ غالباً پناہ لینے کے خیال سے ہوٹل میں کسی قسم کی کوئی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ آدھ گھنٹے تک کچھ آوازیں اور ہلچل سنائی دی اس کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ سب رفع دفع ہو گیا ہے کھڑکیاں کھول کر سوگئے۔

جمعہ۔ ۲۰/ اگسٹ۔ نئی دہلی۔ آج صبح پتہ چلا کہ رات میں جو جھگڑا ہوا تھا وہ ہماری ہوٹل کے مالک اور کچھ لوگوں کے درمیان تھا۔ ہم نے دیکھا کہ مالک ہوٹل کاآفس جو ہمارے رہائشی حصہ سے پرے تھا اس پر کافی پتھراؤ کیا گیا تھا۔ سارے شیشے ٹوٹے پڑے تھے۔ اور فرنیچر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ مالک کی جگہ اب آفس کی نگرانی ایک نوکر کر رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ مالک اور شاید مخالف پارٹی کے چند اور لوگوں کو پولیس نے پکڑلیا ہے۔

آج بہت دیر تک کمرے میں رہے۔ سامنے حلوائی کی دکان پر گرم گرم پوریاں تلی جا رہی تھیں ساگہ بوری اور شیرہ (جو روئے کا میٹھا ہوتا ہے ) سے ناشتہ کر لیا۔ چائے ہوٹل ہی میں مل گئی تھی۔ دوپہر میں ایک ایک روٹی کے ساتھ چاول کھانا چاہتے تھے لیکن آرڈر دینے پر پتہ چلا کہ چاول ختم ہو گیا ہے ، مزید وٹی لے کر کھانا ختم کیا۔ دہی بازار سے لے گئے تھے۔ چینی بھی ساتھ رکھ لی تھی۔ لیکن چاول نہ ملنے سے تشفی نہیں ہوئی۔

نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے ۱۱ نمبری بس سے نئی دہلی جی۔ پی۔ او گئے۔ لیکن بس کے لئے کافی انتظار کرنا پڑا۔ یہاں بسیں کافی دیر سے ملتی ہیں۔ اور ان میں کافی ازدحام ہوتا ہے۔ بڑی بسوں کے ساتھ منی بس بھی چلتی ہیں۔ یہ کم وقفہ سے ملتی ہیں ان کا کرایہ قدرے زیادہ ہے۔ لیکن بیٹھنے کی جگہ مل جاتی ہے۔ مگر یہ صرف ان ہی راستوں پر چلتی ہیں جن پر ٹرافک زیادہ ہے۔ جی۔ پی۔ او کے لئے ہم کو منی بس نہیں ملی۔ C/o پوسٹ ماسٹر کے موسومہ خطوط جو حال ہی میں وصول ہوئے تھے وہ ہم نے دیکھ ڈالے لیکن ہمارے نام کا کوئی خط نہیں ملا۔ وہاں سے ہم بس میں بیٹھ کر Students Travel Information Centre گئے۔ سبھاش گوئیل نے کہا کہ ہمارا F.T.C ریزرو بنک سے منظور ہو چکا ہے۔ ہم نے کہا کہ ایر انڈیا چل کر ٹکٹ خرید لیں۔ اس وقت ساڑھے چار بج رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وقت ہے ٹکٹ لینا مشکل ہے۔ پھر بھی دیکھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد کسی اور صاحب سے مصروف گفتگو ہو گئے ان کی چائے وغیرہ سے تواضع کی اور جب اٹھے تو تقریباً ۵ بج رہے تھے۔

ان کے پاس کافی گاہک آتے ہیں۔ ان کی بیوی کے علاوہ ایک لڑکی اور چار لڑکے آفس میں کام کرتے ہیں۔ تین ٹیلی فون ہیں۔ اور ایک سے ان کے روم میں توسیع ہے۔ میں نے دیکھا کہ تینوں ٹیلی فون بس گھومتے ہی رہتے ہیں۔ گاہکوں کیلئے چائے کے دور الگ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بڑا گاہک آ گیا تو اس کو کافی ہاوس لے جایا جاتا ہے۔ بہرحال مصروفیت ہی مصروفیت رہتی ہے۔ لیکن وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ اور بات کرنے کا طریقہ دلکش ہے ایر انڈیا وغیرہ سے یہ راست کاروبار نہیں کرتے ہیں۔ اور ابھی تک IATA کے تسلیم شدہ ہوئے ہیں ، ہمارا ٹکٹ یہ Continental Travel Service کے توسط سے ایر انڈیا سے خرید رہے ہیں۔ ایر انڈیا آفس میں کانٹنینٹل ٹراویل سروس کے ایک سکھ صاحب آئے تھے۔ ان کے سامنے مقامات کی مکمل صراحت اور ٹکٹ کی قیمت کا تعین ہو گیا سکھ صاحب نے کہا کہ ٹراویل چک (جو ہم نے اسٹیٹ بنک آف انڈیا حیدرآباد ہی میں لئے تھے ) پر تجویز کر کے سبھاش گوئیل صاحب کے حوالہ کر دیں۔ اب ہمارا ٹکٹ دہی۔ بمبئی۔ دوہا۔ بحرین و دہران۔ جدہ۔ قاہرہ۔ روم۔ زیورک۔ پیرس۔ لندن۔ امسٹرڈم۔ بمبئی۔ دہلی کے لئے بن رہا ہے۔ اس طرح کے واپسی کے ٹکٹ کی قیمت فی فرد ۸۸۶۹ یعنی دو آدمیوں کے لئے ۱۷۷۳۸ روپئے ہوئی ہے۔ ہم نے ۱۸ ہزار کے ٹراویل چک پر دستخط کر کے ان کے حوالہ کر دیا

٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول