صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
سفید خون
آغا حشر کاشمیری
ڈرامہ
ترتیب و تحقیق: ڈاکٹر انجمن آرا انجم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
(باب۔۱)
کورس
گانا:۔ پیاری پیاری، قدرت کی پھلواری،ہربن ہرا،گلشن ہرا،جگت کی شوبھا ساری، دیکھ کے نیاری نیاری ،گلکاری، پیاری پیاری۔ ڈار ڈار پر کلیاں سجتی ،کوئل گن بھجتی ۔ کیسی پیاریاں ہیں ساری نیاریاں۔ ہری ہری ڈاری پھولن سے بھری ، نسیم بہاری پیاری ، نازسے جاری، پیاری پیاری۔دوہا:۔
فصلِ گھل آئی کھلی کلیاں دلِ ناشاد کی
ہو گئی دونی بہار اس گلشنِ ایجاد کی
گا رہی ہیں چل کے پریاں نغمہ بائے تہنیت
قاف سے آواز آتی ہے مبارک باد کی
کورس:۔ فصلِ بہاری سے ۔رنگت چمکے عالم کی۔ہر گھر درسے جوبن برسے ۔ فصلِ بہاری سے نورانی، ہے لا ثانی، جگ بنکے چم چم دمکے ۔ رنگت چمکے عالم کی۔ ہر گھر درسے ...
دوہا:۔
ساقیا لے آ گئے دیر و حرم سے گھوم کر
غم گھٹا ، کلفت گھٹی، ساغر پلا دے جھوم کر
سروکو دیتی ہے قمری بن کے عاشق،پیچ و تاب
گُل کو بلبل چھیڑتی ہے روئے رنگیں چوم کر
کورس :۔تم ہو جگ کے آدھار۔ تن من دھن سب نثار ۔ کیسی دکھائی نرالی بہار۔ جدھر نظر قدرت آتی۔ آن دکھاتی۔ شان بتاتی۔ جان لبھاتی۔ فصلِ بہاری سے رنگت چمکے عالم کی...
سین ۔ دربارِ خاقان
(شہنشاہِ خاقان کی لڑکیوں کا شوہروں کے ساتھ آنا اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ جانا۔ شہنشاہ کا مع وزیر ارسلان آنا ۔ سب اہلِ دربار کا تعظیم کے لیے دست بستہ کھڑے ہونا ۔ شہنشاہ کا تخت پر بیٹھ کر سب کو بیٹھنے کا اشارہ کرنا )
گانا: (کورس اور ناچ)
ہے آؤ ، ہے آؤ، کچھ ناچ سے رِ جھاؤ
لو آؤ، لو آؤ ، کچھ رنگ ڈھنگ لاؤ
ہے آؤ ہے آؤ
باغِ جہاں میں رچی شادیاں
بلبلیں گلشن میں ہیں شادماں
ہے آؤ ہے آؤ
دوہا:۔
پران دان ہے پریت میں، تھوڑی کرنا پریت
پران دان تو سہل ہے ، کٹھن پر یت کی ریت
رسیابنا موری سونی سیجریا
ہے آؤ ہے آؤ
خاقان:۔
اے باعثِ حیاتِ جہاں بانی !
اے روحِ روانِ سلطانی!
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جاکے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
اند یشۂ مرگ و خوفِ فردانے گھیرا ہے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں میری شامِ زندگی کا سویرا ہے ۔ لہٰذا چاہتا ہوں کہ وفات سے پہلے حیات کا ایک بڑا فرض ہے وہ چکا دیا جائے یعنی نا اتفاقی کے ہاتھوں سے بچا کر یہ تاج کسی حق دار کے سر چڑھا دیا جائے ۔ سب سے پہلے ہمارے ضعیف کان یہ سننا چاہتے ہیں کہ تم میں ہر ایک بیٹی مجھے کس قدر پیار کرتی ہے ۔ ماہ پارہ ! تم اولادِ اکبر ہو۔ اول تم ہی سے سنیں کہ تمھاری سعادت مندی کیا اظہار کرتی ہے ۔
ماہ پارہ:۔ جہاں پناہ ! اگر یہ امرسچ ہے کہ سمندرکا پانی کوزے میں نہیں سما سکتا ، تو اسے بھی سچ جا نیے کہ آپ کی لا انتہا محبت کا اظہار زبان اور کلام کے ذریعے سے نہیں ہو سکتا ۔میری گویائی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتی کہ جتنی محبت اس خادمہ کو آپ سے ہے اتنی کوئی بیٹی اپنے باپ سے نہ رکھتی تھی اور نہ رکھتی ہے ۔
زارا:۔ (سائڈ میں) اللہ رے خوشامد۔
خاقان:۔ شاباش اے میری نورِ دیدہ شاباش ! مجھ ضعیف کے مشتاق کان جس بات کے لیے گوش برآواز تھے تو نے وہی تسلی بخش بات کہہ سنائی۔ مبارک ہے وہ باپ جس نے تجھ جیسی سعادت مند اولاد پائی ( دل آرا کی طرف اشارہ کر کے ) ہاں بول اے باپ کی دلاری اب ہے تیری باری۔
دل آرا:۔ ذرہ نواز ۔ میں کیا عرض کروں ۔ باجی کی لا جواب اور سچی تقریر کے بعد اس کنیز کا کچھ عرض کرنا محض بے ضرورت ہے ۔ اتنا تو حضور بھی جانتے ہیں کہ میری طبیعت اور آپا کی طبیعت کی بالکل ایک ہی کیفیت ہے ۔
دونوں دل میں جلوہ فرما ہے محبت آپ کی
دونوں گھر کا ہے اُجالا شمعِ الفت آپ کی
سر میں سودا آپ کا دل میں عقیدت آپ کی
منہ پہ کلمہ آپ کا ہے لب پہ مدحت آپ کی
افتخارِ ارض بھی فخرِ سما بھی آپ ہیں
گر خدا کہتا تو ہم کہتے خدا بھی آپ ہیں
زارا:۔ (سائڈ میں ) پناہ تیری!
خاقان:۔ مرحبا! اے میری نوردیدہ تو میری امیدوں سے بھی بڑھ کر سعادت مند اور فرمانبردار ہے ۔ (زارا کی طرف اشارہ کر کے ) ہال بول اے غنچۂ آرزو اب تیری گل افشانی کا انتظار ہے ۔
زارا:۔ ابا جان میں کیا عرض کروں
ا طاعت مجھ سے کہتی ہے کہ تو چپ رہ نہیں سکتی
مگر میرا یہ کہنا ہے کہ میں کچھ کہہ نہیں سکتی
خاقان:۔ کیوں بات کرنے میں کیا برائی ہے ۔ آخر خدا نے زبان کس لیے عطا فرمائی ہے ۔
زارا:۔ اس کی خدائی اور یکتائی کا اقرار کرنے کے لیے اور ضرورت کے وقت اپنی ضروریات کا اظہار کرنے کے لیے
زمانے کی راحت اگر چاہیے
تو باتیں کرے سوچ کر چاہیے
کہے ایک سُن لے جب انسان دو
کہ حق نے زباں ایک دی کان دو
گانا:۔ (زارا) کر غور، گر ہے دانا۔تا پڑے نہ پچھتانا۔گیانی کا گُن گانا۔کر غور گر ہے دانا۔ دل کی دل میں سوچ لے پہلے ۔ اس دم لب پہ لانا ۔ کر غور، گر ہے دانا۔ جس نے بات کی ریت نہ جانی، اُس نے کچھ نہ جانا۔ کر غور ، گر ہے دانا
صبرِ حالِ تباہ مشکل ہے
ضبطِ فریاد و آہ مشکل ہے
چاہ کا دعویٰ ہے بہت آسان
مگر اس کا نباہ مشکل ہے
خاقان:۔
اپ کا فرمان تو فرمانِ شرع ودین ہے
اس قدر انکار میرے حکم کی توہین ہے
زارا :۔ عالی جاہ ! میں اُن باتوں کو پسند نہیں کرتی جن سے انسان کی پسند کا شکار کیا جاتا ہے ۔ سچائی شرافت کی جان ہے ۔ میں اپنے بزرگ باپ سے اس قدر محبت رکھتی ہوں جس قدر محبت رکھنا ہر سعادت مند بیٹی کا فرض اور ایمان ہے ۔
خاقان:۔ اُو فرض فرا موش !یہ کیسی بیہودہ تکرار کرتی ہے ۔ اس سے اچھے اور اس سے عمدہ لفظوں میں تومجھ سے ایک غیر شخص کی محبت کا اظہار کرتی ہے ۔
زارا:۔ تو معلوم ہوا کہ حضور کی طبیعت راست بازی کو نہیں بلکہ لفّاظی کو پیار کرتی ہے ۔
خاقان:۔ زارا ! زارا !
زارا:۔سریرآرا۔ قول کو فعل کے ترازو میں رکھ کر تولنا چاہیے ۔سچی محبت زبان کی دکان اور لفظوں کے بازار میں نہیں ملتی۔ اس کو دل کے خزانے میں ڈھونڈھنا اور طبیعت کے تہہ خانے میں ٹٹولنا چاہیے ۔
خاقان:۔ اوہ غضب ! اتنی چھوٹی اور اتنی طرّار۔
زارا:۔ جی نہیں۔ یو ں فرمائیے کہ اتنی چھوٹی اور اتنی راست گفتار۔
خاقان:۔ تو کیا راست گفتاری اسی سخن سازی کا نام ہے ۔
زارا:۔ تو کیا حق گوئی خوشامد بازی کا نام ہے ۔
خاقان:۔ اظہارِ وفاداری کو خوشامد کہنا یہ ایک قسم کی بدزبانی ہے ۔
زارا:۔ اور مکاری کو وفاداری کہنا یہ ایک خوفناک نادانی ہے ۔
خاقان:۔ وفاداری کے دعوے دار کو مکار کہنا یہ تجھے سجتا نہیں۔
زارا:۔ یہ تو دنیا جانتی ہے کہ جو گر جتا ہے وہ برستا نہیں ۔
خاقان:۔ دل کا حال انسان کی گفتگو سے جانا جا تا ہے ۔
زارا:۔ عطر عطّار کے کہنے سے نہیں بلکہ اپنی خوشبو سے پہچانا جاتا ہے ۔
خاقان:۔ چھوڑ دے یہ ضد۔
زارا:۔ کبھی چھوٹی نہیں۔
خاقان:۔ بے ادب ہے تو۔
زارا:۔ مگر جھوٹی نہیں۔
خاقان:۔ باتیں یہ نا پسند ہیں ۔
زارا:۔ دنیا کو ہیں پسند۔
خاقان:۔ مجھ کو نہیں پسند۔
زارا:۔ خدا کو تو ہیں پسند۔
خاقان:۔ نقصان اٹھائے گی ۔
زارا:۔ میرا باریٔ تعالیٰ ہے ۔
خاقان:۔ میں کچھ نہ دوں گا تجھ کو۔
زارا :۔ خدا دینے والا ہے ۔
خاقان:۔ اچھا اگر تو میری دولت اور سلطنت کو لا پروائی کی ٹھوکر مارتی ہے ، تو اس غرور کو دولت سمجھ جس کو تو حق ، سچائی ، فرض اور ایمان کے نام سے پکارتی ہے ۔ جادور ہو۔ خدا تجھ کو غارت کرے ۔ آج سے میں تجھ کو اور تیری محبت دونوں کو چھوڑتا ہوں ۔ رشتۂ الفت کو توڑتا ہوں
سنگِ فالج بن کے تجھ پر تودۂ لعنت گرے
درد کی صورت اُٹھے اور اشک کی صورت گرے
سر کٹے ، شوکت گھٹے ، ذلّت بڑھے ، عزت گرے
عیش چھوٹے ، قہر ٹوٹے ، غم بڑھے ، آفت گرے
سعدان:۔ بس جہاں پناہ بس ! ایسی ہولناک اور مہیب بددعا اب ان جاں نثار کانوں سے نہیں سنی جاتی ہے ۔ دل لرزتا ہے روئیں روئیں سے پناہ پناہ کی آواز آتی ہے ۔
خاقان:۔ تو کیا ایسی نا خلف اولاد کو والدین دعائے نیک دیتے ہیں۔
سعدان :۔ ولیٔ نعمت بچہ اگر ہاتھ کو نجس کر لے تو کیا ماں باپ اس کو کاٹ کر پھینک دیتے ہیں ۔
خاقان:۔ نہیں ایسی قصور وار پر رحم کرنا کچھ ضرور نہیں۔
شوہر زارا:۔ عالی جاہ !اوّل تو آپ جسے بہت بڑا قصور سمجھتے ہیں وہ کوئی قصور نہیں۔ دوم اولادکیسی ہی قصور وار ہو مگر اس کے حق میں ایسی دل ہلا دینے والی بددعا دینا محبتِ پدری کا دستور نہیں۔ فیاض دل اپنا برا چاہنے والے کے حق میں بھی بھلا جملہ نکالتا ہے ۔ سر سبز درخت ، جو اس کی جڑ کاٹتا ہے ، اس پر بھی اپنا سایہ ڈالتا ہے ۔
خاقان:۔ بہت خوب ! اگر تم اس کھوٹی اشرفی کو کھری سمجھتے ہو تو ہٹاؤ۔ تم ہی اپنے ساتھ لے جاؤ۔ قسم ہے اس آفتابِ قدرت کی جس کے اختیار میں تمام عالم کے ذرائع ہست وبود ہیں، قسم ہے تمام اجرامِ فلکی کی جو ہماری نمودِبے بود کا باعثِ وجود ہیں ۔ آج سے ، اس وقت سے ، او مغرورو سرکش لڑکی !ان خوفناک درندوں کی طرح جو اپنی اولاد کو مارکر کھا جاتے ہیں ، تجھے ذلیل اور ہیٹی جانوں گا ۔جا دور ہو ! آج سے نہ تو مجھے اپنا باپ سمجھنا اور نہ میں تجھے اپنی بیٹی جانوں گا۔
ارسلان:۔ جہاں سردار!
خاقان:۔ ارسلان خبردار!
ارسلان:۔ سریر آرا !
خاقان:۔ ادھر آؤ ماہ پارہ، دل آرا، سنو۔ آج سے ، اس وقت سے ، یہ دولت ، یہ سلطنت ، کل مال ومنال، غر ض جو کچھ ہے سو تمھارا۔ اب ما بدولت کو نہ عزت کی پروا ، نہ سلطنت کی چاہت، صرف چند دن زندگی کے گزارنے ہیں، سو اس کے لیے یہ انتظام کروں گا کہ سرداروں کے ساتھ ایک ماہ اے نورِنظر تیرے گھر اور ایک ماہ اے راحتِ جاں تیرے مکان پر قیام کروں گا ۔ پھر میں کچھ اور ...
ارسلان:۔ حضور ! ذ را غور !
خاقان:۔بس زبان کو تھام لے !
ارسلان:۔انسان کو چاہیے کہ محض غصے ہی سے نہیں ، ذرا عقل سے بھی کام لے ۔
خاقان:۔ اس سے مراد؟
ارسلان:۔عالی نژا د ! آپ کا یہ سخت حکم سنگِغم بن کر ضعیف دلوں کو کچل دے گا۔
خاقان:۔تو ناحق اس سے ہمدردی کرتا ہے ۔ایسی ناخلف اولاد کو کوئی لعنت کے سوا اور کیا دے سکتا ہے ۔
ارسلان:۔ حضور کان اور آنکھ میں صرف چار انگل کا فاصلہ ہے مگرسن کر تجربے کی نظر سے نہ دیکھا جائے تو کوسوں کا فرق پڑ جاتا ہے ۔
خاقان:۔ارسلان! شاہی محلات میں دخل دینا اچھا نہیں،یہ ضعیف شخص کوئی نادان بچہ نہیں جوتمھاری باتوں کی شیرینی سے پھسل جائے گایا اس بے وفاپتلی کی طرح اپنے مضبوط ارادے سے بدل جائے گا
بشر الجھیں ، مَلَک بِگڑیں ، جہاں سارا اُلٹ جائے
زمیں کانپے ، فلک لرزے ، یہ جسم و جاں پلٹ جائے
مگر کیا تاب ، کیا طاقت ، کہ دل ، اور وہ بھی میرا دل
بڑھے اور بڑھ کے گھٹ جائے ، جمے اور جم کے ہٹ جائے
ارسلان:۔حضور میں ارادہ بدلنے کو نہیں کہتا ۔صرف یہ گزارش ہے کہ غیظ سے پہلے غور کیجیے ۔ قسم ہے اس تخت و ا ورنگ کی جس کو میرے بزرگوں نے اپنے خون سے غسل دے کر پاک بنایا ۔قسم ہے اس سربلند سر کی کہ جس کی سر داری کے لیے سینکڑوں سردارانِ لشکر نے اپنا سر کٹایا۔آپ کا یہ اِرادہ ظلمِ ناحق ہے ۔آپ اتنا غیظ و غضب نہ کیجیے ۔اگر آپ سلطنت لٹانا ہی چاہتے ہیں تو سب سے زیادہ اور سب سے پہلے چھوٹی صاحبزادی کا حق ہے ۔
خاقان:۔دیکھو کمانِ کشیدہ کے سامنے نہ آؤ۔اگر ہمیشہ کے لیے چپ نہ رہنا ہو تو اِس وقت تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاؤ۔
ارسلان :۔خاموش کیاکہا!اے سرتاج خاموش!چاپلوسی کا شیطان آپ کو تباہی کے جہنم کی طرف ریلے ،سخن ساز زبان آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر غارِ مصیبت کی طرف ڈھکیلے اور یہ غلامِ وفادار اظہارِ وفاداری سے خاموش ہو۔ لعنت ہو ایسے دل پر جو ایسا فرض فراموش ہو۔
نہ چپ ہے ، نہ یہ حشر تک چپ رہے گا یہی کہہ رہا ہے یہی پھر کہے گا
خاقان :۔کہہ؟
ارسلان:۔ کہ آپ اپنے حق میں جفا کر رہے ہیں
بُرا کہہ رہے ہیں بُرا کر رہے ہیں
خاقان :۔قسم ہے خدا کی کہ ہم راہِ انصاف کے خلاف ہرگز قدم نہیں اٹھاتے ۔
ارسلان:۔ پیر و مرشد !معاف کیجیے ۔ آپ جھوٹی قسم کھاتے ہیں ۔
خاقان:۔ کیوں رے اوسفلے ،او کمینے ! اب تو یہاں تک گستاخی پر آمادہ ہوا۔
ارسلان:۔ حضور ذرا سنبھلیے ۔طبیب کو قتل کیا اور مرض زیادہ ہوا۔
خاقان:۔تو گستاخ ہے ۔
ارسلان:۔ مگر خوشامد باز نہیں۔
خاقان:۔ تو سخن پرور ہے ۔
ارسلان:۔مگر سخن ساز نہیں۔
خاقان:۔حجتی!
ارسلان:۔ مگر راست گفتار۔
خاقان:۔ احمق!
ارسلان:۔مگر آپ سے زیادہ ہوشیار۔
خاقان:۔چل دفع ہو ناہنجار!
ٹیبلو
(سین ختم)
٭٭٭٭٭٭٭