صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
صدا بہ صحرا
منیر نیازی
"تیز ہوا اور تنہا پھول" مجموعے کی نظمیں
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
نظمیں
خواب گاہ
سامنے ہے اک تماشاۓ بہارِ جانستاں
جا بجا بکھری ہوئی خوشبو کی کالی شیشیاں
نیم وا ہونٹوں پہ سرخی کے بہت مدھم نشاں
ریشمی تکیے میں ہیوست اس کی رنگیں انگلیاں
دیکھ اے دل شوق سے یہ آرزو کا کارواں
٭٭٭
صدا بہ صحرا
چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھوروہ کہتی ہے :کون؟"
میں کہتا ہوں "میں۔۔۔۔
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو"
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور
***
ایک آسیبی رات
کافی دیر گزرنے پر بھی جب وہ گھر نہیں آئیاور باہر کے آسمان پر کالا بادل کڑکا
تو میرا دل ایک نرالے اندیشے سے دھڑکا
لالٹین کو ہاتھ میں لے کر جب میں باہر نکلا
دروازے کے پاس ہی اک آسیب نے مجھ کو توکا
آندھی اور طوفان نے آگے بڑھ کے رستہ روکا
تیز ہوا نے رو کے کہا "تم کہاں چلے ہو بھائی؟
یہ تو ایسی رات ہے جس میں زہر کی موج چھپی ہے
جی کو ڈرانے والی آوازوں کی فوج چھپی ہے"
******