صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
رستم و سہراب
یا
عشق وفرض
آغا حشرؔ کاشمیری
( ترتیب و تصحیح )
ڈاکٹر انجمن آرا انجمؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
تعارف
انجمن آرا انجم
حشرؔ
کی ڈراما نگاری کے آخری دور کا یہ المیہ ڈراما ایر ان کے مشہور شاعر
فردوسیؔ کے ’’شاہنامہ‘‘سے ماخوذ ہے ۔ حشرؔ نے یہ ڈراما ۱۹۳۰ میں میڈن
تھئیٹر لمیٹڈ کلکتہ کی پارسی امپیریل تھیئٹر یکل کمپنی کے لیے لکھا تھا۔
یہ کمپنی اس زمانے میں بمبئی میں مقیم تھی‘‘۔(۳۰) آغا جمیل صاحب کے
مطابق ’’رستم وسہراب‘‘ ۱۹۲۹ میں لکھا گیا‘‘۔(۳۱)
یہ ڈراما تین ایکٹ پر مشتمل ہے ۔ پہلے ایکٹ میں چار سین، دوسرے میں آٹھ اور تیسرے میں چھ یعنی کل اٹھارہ سین ہیں۔
’’رستم
وسہراب، ،کے پلاٹ کا خمیر جذبۂ وطن پرستی کی شدّت ،عشق وفرض کی نفسیاتی
کشمکش ، وفا اور دغا کی آویزش ، شاہوں کی ہوسِ اقتدارکی قربان گاہ پر خون
کے رشتوں کی قربانی ، باپ کی تلاش میں بیٹے کی جگر کاوی، تاج و تخت سے
وفاداری نیزدنیاکی نگاہ میں بھرم رکھنے کے لیے باپ کی سخن سازی سے اٹھایا
گیا ہے ۔
وطن پرستی کا جذبہ اس ڈرامے کے مختلف کرداروں بالخصوص گُرد
آفریدکے سینے سے لاوے کی طرح ابلتا ہے اور ایک بحرِ نا پیدا کنار کی
طوفانی موجوں کی طرح پورے ڈرامے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔
ڈرامے کے الفاظ کی سطح سے نیچے اگر گہرائی میں جا کر محسوس کیا جائے تو
معلوم ہو گا کہ اس ڈرامے کے فقط کردار ہی نہیں بلکہ خود ڈراما نگار اس
جذبے سے سرشار ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان پر غیر ملکی تسلط کے
خلاف جو جذبہ خود آغا حشرؔ کے وجود میں تلاطم برپا کیے ہوئے تھا وہ الفاظ
میں ڈھل کر گُرد آفرید کی زبان سے پگھلے ہوئے لاوے کی طرح ہر شے کو اپنی
لپیٹ میں لیے ہوئے رواں دواں ہے حتیٰ کہ خود محبت جیسا شدید جذبہ بھی اس
کی آنچ سے پِگھل جاتا ہے ۔ اس ڈرامے کا دوسرا نام عشق وفرض بھی اس طرف
اشارہ کر رہا ہے کہ ڈراما نگار کی نظر میں حبِّ وطن ایسا جذبہ ہے جسے عشق
ومحبت کے جذبات پر بھی غالب رہنا چاہیے ۔
پلاٹ:۔
ایران کا مشہور زمانہ جنگ جو رستم اپنے وطن ایران واپس جاتے ہوئے سمنگان
میں کچھ دیر کے لیے قیام کرتا ہے اور اپنے گھوڑے کو سر سبز میدان میں چرنے
کے لیے چھوڑدیتا ہے ۔ چند تورانی سردار رستم کو سوتا دیکھ کر اُس کا گھوڑا
چُرا کر لے جاتے ہیں ۔ جاگنے پر رستم اپنے گھوڑے کو تلاش کرتا ہے اور اس
کے نہ ملنے پر تورانی سرداروں سے اس کی سخت گفتگو ہوتی ہے ۔ رستم ، شاہ
سمنگان کے دربار میں پہنچ کر اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ یا تو فوراً
میراگھوڑا واپس کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔
شاہ سمنگان ، رستم کی
بے جگری ، اولوالعزمی اور بارعب شخصیت سے متاثر ہو کر اس کو اپنا مہمان
بنا لیتا ہے اور اپنی بیٹی تہمینہ کی شادی اُس سے کر دیتا ہے ۔ رستم
تہمینہ کو وہیں چھوڑ کر ایران واپس چلا جاتا ہے ۔ تہمینہ کے بطن سے سہراب
پیدا ہوتا ہے ۔ شجاعت اور فنِ سپہ گر ی کی دنیا میں وہ نو عمری ہی میں
اپنا نام پیدا کر لیتا ہے ۔
توران کے شہنشاہِ افرا سیاب کے لیے
اپنے دشمن رستم کا اپنے ہی ما تحت شاہِ سمنگان کا داماد بن جانا ایک نا
قابلِ برداشت توہین تھی ۔ وہ اپنے انتقامی جذبے کی آگ کو بجھانے کے لیے
سہراب کو جس کا وطن سر زمین توران ہے ، تورانی فوج کے ساتھ ایران پر
حملہ کرنے کا حکم صادر کر دیتا ہے ۔ سہراب ، ایران کے قلعۂ سفید پر حملہ
آور ہوتا ہے ۔ قلعہ کا سردار گستہم اور دوسرے فوجی افسر سہراب کے مقابلے
کی ہمت نہیں پاتے مگر اس کے سامنے سپر بھی نہیں ڈالنا چاہتے لیکن قلعۂ
سفید کا ایک سردار بہرام غدّاری کر کے شکست تسلیم کرنے اور صلح کرنے پر
آمادہ ہو جاتا ہے اور حاکمِ قلعہ گستہم کو بھی اس پر تیار کر لیتا ہے ۔
مگر حاکمِ قلعہ کی شیر دل ، خودداراور محب وطن بیٹی گرد آفرید ، غدّار
بہرام کو سخت لعنت ملامت کرتی ہے اور اپنی ولولہ انگیز تقریر سے ایرانی
فوج میں نئی زندگی دوڑا دیتی اور نیا جوش بھردیتی ہے ۔
گُرد آفرید
مردانہ لباس میں خود میدانِ جنگ میں آتی ہے اور عالمِ غیظ و غضب میں سہراب
کو مقابلے کے لیے للکارتی ہے ۔ دورانِ جنگ گردآفرید گھوڑے سے گرجاتی ہے جس
سے اس کا خود سر سے اتر جاتا ہے اور بال بکھر جاتے ہیں۔ سہراب اس کی
بہادری ، جرأت اور حسن وجمال سے مسحور ہو کر اپنا دل اُسے دے بیٹھتا
ہے ۔ گرد آفرید بھی اس کی مردانہ وجاہت اور شجاعت کو دیکھ کر اُس کی محبت
میں گرفتار ہو جاتی ہے لیکن اس کا عشق ، وطن کی محبت اور حفاظت کے جذبے کو
مغلوب نہیں کر پاتا اور وہ ایک شدید ترین نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہو جاتی
ہے ۔ ایک طرف اس کا محبوب سہراب ہے اور دوسری طرف اس کا محبوب وطن ہے ۔
گرد آفرید کا پورا وجود ان دو مخالف محبوبوں کی محبت کی کشمکش سے سلگ
اٹھتا ہے ۔ چنانچہ وہ ایک طرف تو سہراب اور اس کی فوج کو قلعے میں آنے کی
دعوت دیتی ہے مگر جب سہراب پہنچتا ہے تو اس سے ملنے سے انکارکر دیتی ہے ۔
سہراب اپنی اس تذلیل کو برداشت نہیں کر سکا ۔ انتہائی جوش اور غیظ و غضب
میں اپنی فوج کو قلعے پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن ساتھ ہی تنبیہہ کر
دیتا ہے کہ گردآفرید کو کوئی گزند نہ پہنچے ۔ غدّار بہرام موقع پاکر گرد
آفرید کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیتا ہے ۔ اس واقعہ کا علم ہونے پر سہراب
بپھرجاتا ہے اور بہرام کو موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے ۔ محبت کے جوش اور شدید
غم کے عالم میں گرد آفرید کا سر اپنے زانو پر رکھ لیتا ہے ۔ دونوں ایک
دوسرے کی محبت کا اقرار کرتے ہیں اور گردآفرید اسی حالت میں دم توڑدیتی ہے
۔
سہراب کی پیش قدمی سرزمین ایران میں جاری رہتی ہے ۔ اس طوفان کو
روکنے کے لیے ایران کے پاس صرف ایک ہی دلاور ہے اور وہ ہے رستم جو یہ نہیں
جانتا کہ جنگ آزما سہراب اس کا لختِ جگر ہے ۔ دوسری طرف سہراب یہ تو جانتا
ہے کہ رستم میرا باپ ہے مگر وہ رستم کو پہچانتا نہیں۔ وہ اپنے تورانی
سرداروں سے رستم کی شناخت چاہتا ہے مگر وہ رستم کو پہچانتے ہوئے بھی سہراب
کو نہیں بتاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رستم کو اگر کوئی زیر کر سکتا ہے تو
صرف سہراب۔ چنانچہ باپ اور بیٹے کے ٹکراؤ سے یہ عظیم المیہ وجود میں آتا
ہے ۔ غیر شعوری طور پر خون کا رشتہ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف تلوار
اٹھانے سے روکتا ہے ۔ سہراب لاکھ چاہتا ہے کہ رستم یہ بتا دے کہ وہ رستم
ہے مگر رستم اقرار نہیں کرتا اور جو نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہو جاتا ہے
۔رستم سہراب کو مغلوب کر کے ہلاک کر دیتا ہے مگر جب وہ سہراب کے
بازو پر تہمینہ کودی ہوئی اپنی بندھی نشانی یعنی اپنا مہرہ دیکھتا ہے تو
اسے پتہ چلتا ہے کہ سہراب تو اسی کے جگر کا ٹکڑا ہے ۔ اپنے ہاتھوں لائی
ہوئی اس بد نصیبی پر رستم کا وجود آنسوؤں میں پگھل جاتا ہے ۔
کردار
نگاری:۔ ڈرامے کے سبھی کردار اپنی جگہ اہم ہیں خصوصاً رستم ، سہراب، بہرام
، ہجیر، تہمینہ اور گرد آفرید کے کردار بڑے اثر انگیز ہیں۔ رستم وسہراب
، شجاعت ، جرأت اور دلیری کے پہاڑ ، بے خوفی اور جانبازی کی علامت ،
اپنے اپنے وطن سے محبت کے پیکر ، ایرانی وتورانی جاہ وجلال اور عظمت کی
قابلِ رشک ہستیاں ، بہرام، غدارِ قوم وملک ، بزدل اور کمینہ ، ہجیر ملک
وقوم کا وفادار اور ان کی آزادی پر مرمٹنے والا ، تہمینہ ، رستم کی با وفا
شریکِ حیات اور اپنے بیٹے سہراب سے بے پناہ محبت کرنے والی ماں ۔ سب سے
زیادہ اثر انگیز اور دل کی گہرائیوں میں اترجانے والا کردار ہے گُردآفرید
کا جو حسن وجمال اور نسائیت وپاکیز گی کا مجسمہ، عشق ومحبت کا پیکر ،
شرافت ، جرأت اور حوصلہ مندی کا مرقع ، وطن پرستی اور جاں نثاری کی لازوال
مثال ہے جس پر ایرانی تاریخ ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ اس ڈرامے کا ہر کردار
مسحور کن حد تک اثر آفریں ہے ۔ حرکت وعمل سے بھر پور یہ کردار دل پر ایک
پائدارنقش قائم کرنے میں کامیاب نیز حشرؔ کے فنِ کردار نگاری کے کمال کا
بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔
عشق وفرض کی جنگ میں گردآفرید جس روحانی
اذیت اور ذہنی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے اس کااظہار حشرؔ نے اپنے جادو نگار
قلم سے کتنے پرُ ا ثر طریقے پر کیا ہے ۔
گُرد آفرید: ۔آؤ سہراب تمھیں
دیکھ کر دل میں زند ہ رہنے کی تمنا پیدا ہو گئی، لیکن اب تمنا کا وقت نہیں
رہا ۔ میرے دل کے مالک میرے فرض نے مجھے بے مرّوت بننے کے لیے مجبور کر
دیا تھا ۔ حقِّ وطن کا مرتبہ عشق سے بلند تر ہے اس لیے مجھے معاف کر دو۔
پھر کہتی ہے :۔
گُر
آفرید :۔ آہ تمھیں کیا معلوم عشق وفرض کی کشمکش میں میری روح نے کتنے عذاب
برداشت کیے ہیں ۔ کتنے زلزلوں سے تنہا واقفِ پیکار رہی ہے ۔ صدمہ نہ کرو۔
دوست اور دشمن ہم نام ہیں اس لیے تمھیں دھوکا ہوا ۔ میں نے اپنے پیارے
سہراب سے نہیں اپنے ملک کے مخالف سے جنگ کی ہے ۔
انتہائی جری ، بہادر
اور اپنی طاقت پر نازاں رستم جب اپنی تلوار سے میدانِ جنگ میں اپنے بیٹے
سہراب کو قتل کر دیتا ہے تو پدرانہ محبت کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ بیٹے کی
موت پر رستم کا روحانی اور ذہنی کرب نا قابلِ برداشت ہے ۔ تمام دنیا
سے ٹکر لینے والے رستم اور ایک باپ میں کتنا فرق ہے ۔
رستم: ۔ آسمان
ماتم کر ۔ زمین چھاتی پیٹ۔ درختو! پہاڑو! ستارو ! ٹکرا کر چور چور
ہو جاؤ۔ آج ہی زندگی کی قیامت ہے ۔ آج ہی دنیا کا آخری دن ہے ۔ زندگی کہاں
ہے !دنیا کہاں ہے !زندگی سہراب کے خون میں اور دنیا رستم کے آنسوؤں
میں ڈوب گئی ۔ سہراب ! سہراب ! سہراب!
زبان وبیان :۔ آغا حشرؔ کا یہ
رزمیہ ڈراما پرُ شکوہ الفاظ ، ا ثر آفریں فقروں ، زبان کی حلاوت ،
بیان کی چاشنی ، عبارت کے دروبست، شیریں فارسی تراکیب ، چست بند شوں ،
حسین اور خوبصورت تشبیہات کا ایک طلسم ہے ۔ اشعار کے بر محل اور برجستہ
استعمال ، مکالموں کی روانی اور اثر انگیزی، کرداروں کی داخلی کیفیت اور
نفسیاتی کشمکش، عشق اور وطن پرستی کے طاقتور جذبوں کی باہمی آویزش،کرداروں
کے مرتبے اور مقام کے لحاظ سے اندازِ گفتگو کی پیشکش میں حشرؔ کے جادونگار
قلم نے ڈرامے کے فن کو اس کی معراج پر پہنچا دیا ہے ۔
حشرؔ کا یہ
رزمیہ ڈراما ، پلاٹ کی تعمیر وترتیب ، کرداروں کی تشکیل ، مکالموں کی بلند
آہنگی ، خطییانہ اندازِ بیان اور منظرنگاری کے لحاظ سے ایک ادبی شاہکار
اور اردو اسٹیج کا ایک غیر فانی کارنامہ ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭