صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں



رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

صلاح الدین یوسف

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

محرم الحرام۔۔ سن ہجری کا آغاز

سانحۂ کربلا کا اس کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں!

ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد تو آنحضرت ﷺ کے واقعۂ ہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز ِ استعمال ۱۷ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر تھے ان کے پاس حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فرمان آتے تھے جن پر تاریخ درج نہ ہوتی تھی۔ ۱۷ھ ہجری حضرت ابو موسی ٰرضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو اپنے ہاں جمع فرمایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا، تبادلۂ افکار کے بعد قرار پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتداء ماہ محرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ نبوت کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔ (فتح الباری، باب التاریخ ومن أین أرخو التاریخ؟ ج۳۳۴/۷، حدیث: ۳۹۳۴، طبع دارالسلام)

مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے ایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کو یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں، مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے۔ بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے، لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کے ا یسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور در پئے آزار ہو جائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش و اقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کر لیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کر دیا جائے اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت کر لی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کر کے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے۔

چنانچہ اسی واقعۂ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ تو کسی انسانی برتری اور تَفَوُّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعے کو، بلکہ یہ واقعۂ ہجرت مظلومی اور بے کسی کی ایک یادگار ہے کہ جو ثبات قدم، صبر واستقامت اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے۔ یہ واقعۂ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم و بے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کر کس طرح کامرانی و شادمانی کا زریں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی و گمنامی سے نکل کر رفعت و شہرت اور عزت و عظمت کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے۔ (یہ حدیث آگے آئے گی)

یہ بھی خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا سیدنا حضرت حسینؓ کے واقعۂ شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لیے قابل احترام ہے کہ اس میں حضرت حسینؓ کی شہادت کا سانحۂ دلگداز پیش آیا تھا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ سانحۂ شہادت تو حضور ا کرم ﷺ کی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا اور دین کی تکمیل آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کر دی گئی تھی۔

[ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًا ۚ] (المائدۃ۳/۵)

اس لیے یہ تصور اس آیت قرآنی کے سراسر خلاف ہے، پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحۂ شہادت اور واقعۂ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ۔ اگر بعد میں ہونے والی ان شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کا اعتبار کرتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم و شیون کی اجازت ہوتی تو  یقیناً تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام ان پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم و گریہ زاری کرتے، کم ہوتا۔ لیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم و گریہ زاری کی اجازت نہیں،دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں اس لیے ان کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں۔

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                   ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول