صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


مولانا رُومی کی جمالیات

 ڈاکٹر شکیل الرحمن

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

عشق کا جمال۔۔عشق کی رُومانیت

    صوفی کے   لیے  روحانیت کوئی سنسنی خیز یا ہیجان انگیز تجربہ نہیں  ہے، صوفی باطن کی گہرائیوں  میں  اُتر کر ایک ارفع  اور  بلند سطح پر پہنچ جاتا ہے، اس کا شعور صاف شفاف آئینے  کی مانند چمکتا ہے۔ اسی شعور کے  آئینے  میں  وہ حیات و کائنات کے  رموز و اسرار کو دیکھ لیتا ہے۔ عشق کا جذبہ اتنا روشن ہو جاتا ہے  کہ اس کے  علاوہ  اور  کچھ نظر نہیں  آتا اسی کی روشنی میں  تجلیاتِ الٰہی کا مشاہدہ کرتا ہے اور خالق کو پا لیتا ہے۔ اسی عشق کی خوبصورت شعاعیں  اُسے  تمام انسانوں  کے  دلوں  تک پہنچا دیتی ہیں اور ایک دلکش جمالیاتی وحدت کا عرفان عطا کرتی ہیں۔ مولانا رومیؒ فرماتے  ہیں  جس نے  خلوت میں  بصیرت کی راہ پا لی (ہر کہ در خلوت بہ بینش یافت راہ) اسے  کسی  اور  چیز کی ضرورت نہیں  ہوتی۔ جس نے  روح کے  حسن کو پا لیا یا جو روح کے  حسن کا ہم پیالہ بن گیا (باجمالِ جاں  چو شدہم کاسۂ) اسے اور کیا چاہیے۔ مولانا رومیؒ کا خیال یہ ہے  کہ عشق بے  نیاز خدا کے  اوصاف میں  سے  ہے:

عشق زا و صافِ خدائی بے  نیاز

عشقِ کمال کا آفتاب ہے  وہ سارے  عالم کا نور ہے  عا   لم خلق سب سایوں  کی مانند ہیں۔

عشق ربّانی ست خورشیدِ کمال

امر نور اوست خلقاں  چوں  ظلال

عشق کی راہ ایسی ہے  کہ اس میں  عمل  اور  علم دونوں  کی راہیں  جذب ہو جاتی ہیں، عمل کی راہ پر انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر چیلنج سامنے  ہوتا ہے، علم کی راہ زندگی کو سمجھاتے اور بہت سی گتھیاں  سلجھاتے  ہوئے  آگے  بڑھتی ہے، عشق کی راہ میں  یہ دونوں  راہیں  جذب ہو جاتی ہیں، عشق کی راہ ایسی ہے  جو انسان کو گم کر دیتی ہے۔ عشق کی راہ پر انسان کی خودی نظر نہیں  آتی، انسان کا عمل خالقِ کائنات کا عمل بن جاتا ہے۔ خدا ہی نئی تراش خراش کرتا ہے  خود کھوکھلا بانس بن جاتا ہے  وہ تراش خراش کے  بعد انسان کو بانسری کی صورت دے  دیتا ہے۔ ایک صوفی اُس کلی کی مانند ہوتا ہے  جو صبح سویرے  سورج کی کرنوں  کو اجازت دیتی ہے  کہ انھیں  کھول دے، اپنی پنکھڑیوں  کو کھول دینے  کی اجازت دیتی ہے  خود نہیں  کھلتی۔ سورج کی شعاعیں  اس کی خوبصورت نازک پنکھڑیوں  کو کھولتی ہیں، بڑی خاموشی سے  آہستہ آہستہ، جیسے  جیسے  کرنیں  پڑتی ہیں  پنکھڑیاں  کھلتی جاتی ہیں، کلی تو عشق کے  جذبے  سے  سرشار صرف اس بات کی اجازت دیتی ہے  کہ سورج کی کرنیں  اس کی پنکھڑیوں  کو کھول دیں، وہ خود کچھ بھی نہیں  کرتی، صوفی جب کلی کی صورت اختیار کر لیتا ہے  تو وہ بھی خاموش رہتا ہے۔ وہ دشوار را ہوں  سے  گزٍر چکا ہے، عمل کی راہ سے  گزر چکا ہے  علم کی راہِ سے  گزر چکا ہے، دیکھ چکا ہے  کہ اب وہ جس راہ پر ہے  وہ عشق کی راہ ہے  کہ جہاں  اس کی خودی گم ہو چکی ہے اور جہاں  عمل  اور  علم کی راہیں  جذب ہو گئی ہیں۔ صوفی پھر سورج مکھی کے  پھول کی طرح گھومتا ہے۔ جس جانب آفتاب ہوتا ہے  اس کا رُخ بھی اسی طرف ہوتا ہے، عشقِ الٰہی کی شعاعیں  اس کی شخصیت تبدیل کر دیتی ہیں۔ مولانا رومیؒ نے  عشق و  محبت پر اظہار خیال کرتے  ہوئے  کہا ہے:

از  ّمحبت تلخہا شیریں  شود

از  ّمحبت مِسّہا زرّیں  شود

از  ّمحبت دُردہا صافی شود

و ز  ّمحبت دردہا شافی شود

از  ّمحبت خا رہا گل می شود

و ز  ّمحبت سر کہا مُل می شود

از  ّمحبت دار تختے  می شود

و ز  ّمحبت بار بختے  می شود

از  ّمحبت سجن گلشن می شود

بےمحبت روضہ گلخن می شود

از  ّمحبت نار نورے  می شود

و زمحبت دیو حورے  می شود

از  ّمحبت سنگ روغن می شود

بےمحبت موم آہن می شود

از  ّمحبت حزن شادی می شود

و ز  ّمحبت غول ہا دی می شود

از  ّمحبت نیش نوشے  می شود

و ز  ّمحبت شیر موشے  می شود

از  ّمحبت سُقم صحت می شود

و ز  ّمحبت قہر رحمت می شود

از  ّمحبت خار سوسن می شود

و ز  ّمحبت خانہ روشن می شود

از  ّمحبت مردہ زندہ می شود

و ز  ّمحبت شاہ بندہ می شود

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

 محبت سے  کڑوی چیزیں  میٹھی ہو جاتی ہیں،محبت سے  تانبہ سونا بن جاتا ہے،محبت سے  درد شفا بخشنے  والے  بن جاتے  ہیں، کانٹے  پھول  اور  سر کے  شراب بن جاتے  ہیں، سولی تخت بن جاتی ہے، بوجھ خوش نصیبی بن  جاتی ہے، قید خانہ چمن، آگ نور بن جاتی ہے،محبت نہ ہو تو باغ بھٹیّ بن جائے، موم لوہے  میں  تبدیل ہو جائے،محبت سے پتھر تیل  اور  غم خوشی بن جاتا ہے، بچھو کا ڈنک شہد بن جاتا ہے،محبت قہر کو رحمت میں  تبدیل کر دیتی ہے، کانٹے  کو سوسن  اور  گھر کو روشنی کی صورت دے  دیتی ہے۔ مولانا رومیؒ نے  عشق و محبت کو طرح طرح سے  سمجھانے  کی کوشش کی ہے۔ انسان  محبت  اور  عشقِ الٰہی کے  جذبے  کے  ساتھ اپنے  وجود کی گہرائیوں  میں  اُترتا ہے، جتنی گہرائیوں  میں  اُترتا ہے  اسی اعتبار سے  اس کی جڑیں  مضبوط ہوتی ہیں۔ محبت  کے  درخت کو تیزی سے  بڑا ہونا ہے  تو اس کی جڑوں  کو گہرائیوں  میں  ہونا چاہیے۔ جب درخت بڑا ہوتا ہے  تو وہ تو انائی یا انرجی کا پیکر ہوتا ہے۔ اس کے  پھول پھل تجربے  عطا کر نے  لگتے  ہیں، یہ پھل  اور  پھول غیر معمولی نوعیت کے  ہوتے  ہیں، اپنے  پھولوں  کی خوبصورتی  اور  خوشبو  اور  پھلوں  کی خوشبو  اور  شیرینی  اور  زبردست لذتوں  سے  آشنا کرتے  ہوئے  یہ تو انائی سچائیوں اور حقیقتوں اور زندگی کے  رموز و اسرار کو طرح طرح سے  سمجھانے  لگتی ہے، ایسی ہی ایک تو انائی کا نام محمد جمال الدین مولانا ئے  روم ہے  جنھیں  ہم سب مولانا رومیؒ کہتے  ہیں۔

     انسان کے  تعلق سے  مولانا رومیؒ کے  یہ خیالات ہمیشہ توجہ طلب رہے  ہیں:

آمدہ اوّل بہ اقلیم جماد

و ز جمادی در نباتی دفتاد

سالہا اندر نباتی عمر و کر د

و ز نباتی یار ناؤ رو از نبرد

و ز نباتی چوں  بہ حیوانی فتاد

نامہ ش حالِ نباتی ہیچ یاد

جز ہماں  میلے  کہ دار دسوئے  آں

خاصہ در وقتِ بہارِ ضمیراں

ہمچو میل کو دُکاں  با مادراں

سرّ میلِ خود نہ داند در لباں

باز از حیواں  سوانسانیش

میکشدآں  خالقے  کہ دانیش

ہمچنیں  اقلیم تا اقلیم رفت

تاشد اکنوں  عاقل و دانا و زفت

ابتدا میں  انسان جماد تھا پھر نبات بنا، صدیوں  صدیوں  نبات رہا۔ نباتی زندگی اُسے  یاد نہیں  ہے۔ نبات سے  حیوان بنا، نباتی حالت اسے  یاد نہیں  سوائے  اس کے  کہ وہ موسمِ بہار کی جانب لپکتا ہے  اس کا ضمیر کھیلنا چاہتا ہے، جس طرح بچے ّ ماؤں  کی طرف لپکتے  ہیں اور پھر اپنے  میلان کی یاد جاتی رہتی ہے، اپنے  میلان کا راز نہیں  جانتا اس کے  بعد حیوان سے  انسان بنا، اس طرح انسان ایک عالم سے  دوسرے  عالم کی طرف چلتا رہتا یہاں  تک کہ وہ عاقل  اور  دانا بن گیا۔ مولانا شبلی نعمانی نے  تحریر کیا ہے  کہ ڈارون سے  بہت پہلے  مولانا رومی ؒ ارتقا کی ان منزلوں  کے  قائل تھے۔

    مولانا رومیؒ نے  انسان کی عظمت کو طرح طرح سے  سمجھا نے  کی کوشش کی ہے۔ مندرجۂ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے:

گر کفِ خاکے  شود چالاک اُو

پیشِ خاکش سر نہد افلاکِ اُو

خاکِ آدم چونکہ شد چالاکِ حق

پیشِ خاکش سر نہد املاکِ حق

اَ لسّماءُ انشقَّت آخر از چہ بود

از یکے  چشمے  کہ خاکے  بر کشود

خاک از دردی نشنید زیرِ آب

خاک بیں  کز عرش بگذشت از شتاب

آں  لطافت پس بداں  کز آبِ نیست

جز عطائے   مبدعِ وہّاب نیست

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

اگر ایک مٹھی مٹی اللہ کی اطاعت کرے  تو اس مٹّی کے  سامنے  آسمان جھک جائیں، خاکِ آدم کی مثال سامنے  ہے۔ اس مٹّی کے  آگے  اللہ کی مملوک نے  سر رکھ دیا، آسمان پھٹ گیا (شق القمر) اس کا سبب یہی تھا کہ مٹّی نے  آنکھ کھولی تھی، مٹّی تلچھٹ ہو جانے  کے  سبب پانی کے  نیچے  بیٹھ جاتی ہے، غور کرو یہی مٹّی تیزی سے  عرش سے  بھی اوپر چلی گئی، یہ لطافت آب و گل کی نہیں  ہے  یہ تو اللہ کی دین ہے، عطا کر نے  والے  نے  یہ تو انائی عطا کی ہے۔

    مومن سے  دوزخ بھی خوفزدہ ہے:

مصطفیؐ فرمود از گفت جحیم

کو بمومن لابۂ گر گردو زبیم

گویدش بگزر زمن اے  شاہ زدد

بیں  کہ نورت سوزِ نارم را ربود

پس ہلاکِ نار نورِ مومن ست

زانکہ بے  ضد دفعِ ضدلا یمکن ست

نار ضد نور باشد روزِ عدل

کاں  زقہر انگیختہ شد دیں  ز فضل

گرہمی خواہی تو دفعِ شرِّ نار

آبِ رحمت بر دلِ آتش گمار

چشمۂ آں  آبِ رحمت مومن ست

آبِ حیواں  روحِ پاکِ محسن ست

(مثنوی مولانا روم دفتر دوم)

رسول کریمؐ نے  فرمایا ہے  کہ دوزخ ڈر  اور  خوف سے  مومن کی خوشامد کرے  گی، کہے  گی میرے  پاس سے  جلد چلا جا۔ تیرے  نور نے  میری آگ کی گرمی ختم کر دی، مومن کا نور، آگ کی تباہی ہے، قیامت کے  دن آگ نور کی ضد ہو گی اس لیے  کہ وہ قہر سے  بھڑکی ہے اور یہ فضل و کرم سے  وجود میں  آیا ہے۔  اگر  آگ کے  شر کو ختم کرنا چاہتا ہے  تو اس کے  لیے  رحمت کے  پانی کی ضرورت ہے۔ آبِ رحمت ہی اس آگ کو بجھا سکتا ہے۔ آبِ رحمت کا چشمہ کون ہے  مومن، اس کی پاک روح آب حیواں  ہے۔

    انسان کا دل پاک و صاف ہوتا ہے  تو وہ آب و خاک سے  بہت اوپر نقش دیکھنے  لگتا ہے:

٭٭٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول