صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اقبال ریویو
رومی نمبر
مدیر: محمد امتیاز الدین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
یادداشت بابت ’’میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے ‘‘
مولانا رضوان القاسمی مرحوم
(ساؤتھ آفریقہ سے اقبال ریویو کے ایک قاری کے استفسار پر مولانا رضوان القاسمی مرحوم نے یہ نوٹ تحریر فرمایا تھا جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے )
علامہ اقبالؒ نے ’’ہندوستانی بچوں کے قومی گیت‘‘ کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس کا ایک مصرعہ یہ ہے :
میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
(کلیاتِ اقبالؔ، حصہ بانگ درا: ص ۷۲، مرکزی مکتبہ اسلامی، نئی دہلی)
اگرچہ بانگِ درا کے شارح پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے لکھا ہے کہ ’’اس میں آنحضرتﷺ کی حدیث کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ’’مجھے ہندوستان سے توحید کی خوشبو آتی ہے ‘‘ لیکن چشتی صاحب نے جن احادیث اور آثار کو بنیاد بنایا ہے ، ان میں صراحتاً ’’توحید‘‘ کا لفظ نہیں ہے، ہاں ! معنی خوشبو کا لحاظ کرتے ہوئے احادیث اور آثار میں جو الفاظ آئے ہیں ان سے توحید اور ایمان کا اشارہ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
سید غلام علی آزاد بلگرامی کی ایک کتاب ’’سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان‘‘ کے نام سے ہے، یہ اپنے موضوع پر اہم اور وقیع کتاب ہے، اور ہندوستان کے موضوع پر لکھتے ہوئے کوئی محقق اور مورخ اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، اس کتاب کے ابتدائی صفحات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ السلام جب فیصلہ خداوندی کے تحت جنت سے زمین پر تشریف لائے تو یہ مقام ’’سراندیپ‘‘ کا تھا۔ آزاد بلگرامی اور دوسرے محققین نے تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے کہ حضرت آدمؑ جنت سے اپنے ہمراہ کن چیزوں کو لے کر اترے تھے، ان چیزوں میں خوشبو کی قبیل کی جن چیزوں کا ذکر ملتا ہے وہ یہ ہیں :
۱۔ عود، ۲۔ صندل، ۳۔ مشک، ۴۔ عنبر، ۵۔ کافور،
کیا عجب کہ ’’ابو البشرؑ‘‘ سے غیبی نظام کے تحت یہ بات، ’’خیر البشرؐ‘‘ تک پہنچتی ہو، اور آپﷺ نے کسی خاص موقع پر ارشاد فرمایا ہو کہ ہندوستان کی سرزمین سے مجھے خوشبو آ رہی ہے، یہ خوشبو مادی اور ظاہری حیثیت کی بھی ہو سکتی ہے جس سے مشامِ جاں تازہ اور معطر ہوا کرتا ہے، اور ایمان و توحید کی روحانی اور غیر مرئی خوشبو بھی ہو سکتی ہے ، جو ہندوستان جیسے کفر و شرک زدہ علاقہ میں صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین اور اسلاف و اکابر کے ذریعے پھیلنے والی تھی، جو پھیل کر رہی، اور بعد کے تاریخی احوال اور آثار نے اس احساسِ نبویؐ پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔
روحانی احساس، یقین اور ایمان کی بنیاد پر ابھرتا اور اجاگر ہوتا ہے، اس کے لیے انبیاء اور روحانی شخصیتوں کی بہت ساری مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، تاہم قرآن کریم میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے ذیل میں جو بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کے کرتہ کی خوشبو بہت دور دراز مسافت سے سے انہیں آنے لگی تی، جب کہ ان کے پاس میں رہنے والے بیٹے ان کے اس احساس کو غلط قرار دے رہے تھے، تاہم ان کے اندر کا یقین بول رہا تھا کہ یہ جو کچھ میں بیان کر رہا ہوں ناقابلِ تردید حقیقت ہے، پھر ہوا یہی کہ جو کچھ حضرت یعقوبؑ نے بیان کیا تھا وہ ہو کر رہا، اور جب حضرت یوسف ؑ کا کرتہ نگا ہوں کے سامنے آ گیا تو ان کے ان بیٹوں نے بھی اس سچائی کے اعتراف پر اپنے آپ کو مجبور پایا۔ گویا:
بُعدِ مسافت نہ بود در سفرِ روحانی
روحانی سفر میں زمان و مکان حائل نہیں ہوا کرتا، اور نبیؐ اپنی آنکھوں سے اپنے دور میں وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دور کے لوگ نہیں دیکھ سکتے، نبیؐ کی پیش گوئیاں بھی اسی قبیل کی ہیں، اور بعد میں آنے والے حالات کی اطلاع بھی اسی نوعیت کی ہے ۔
ان اجمالی مباحث کے بعد یہ عرض ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے یہ قول نقل کیا ہے ’’أطیب ریحا أرض الھند‘‘ ہندوستان پاکیزہ ترین خوشبو والا ملک ہے ۔ (ابن عسا کربحوالہ المرجان فی آثار ہندوستان، صفحہ ۳۱)
بعض لوگوں نے اس قول کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کیا ہے لیکن مشہور محقق، مورخ، اور سیرت نگار مولانا سید سلیمان ندویؒ نے لکھا ہے کہ
’’یہ تمام روایتیں فنِ حدیث کے لحاظ سے بہت کم درجہ کی ہیں ۔ ‘‘ (عرب و دیار ہند، از مولانا خواجہ بہاء الدین ا کرمی ندوی، صفحہ ۱۳)
آخر میں اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ علامہ اقبالؒ اپنے دور میں عظیم شاعر کی حیثیت ہی سے نہیں اُبھرے تھے بلکہ ادیان و مذاہب کی تاریخ پر بھی ان کی گہری نظر تھی، وہ تاریخی شعور بھی رکھتے تھے اور تاریخی واقعات کو قرینہ اور سلیقہ سے پیش کرنے کا انہیں فن بھی آتا تھا۔ اقبالؔ نے بیشمار تاریخی واقعات کو اشعار میں اپنے گہرے فلسفیانہ شعور کے ساتھ جو سمویا ہے ، وہ انہیں اپنے معاصر شعراء کے درمیان امتیاز بخشتا ہے، اور اس معاملہ میں ان کا کوئی ہم عصر ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
’’میر عرب ؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے ‘‘ ۔ ۔ ۔ اس زبردست تلمیحاتی مصرعہ سے اقبالؔ نے ہندوستان کی عظمت کوکہاں سے کہاں تک پہنچایا، ہندوستان سے متعلق جتنے قومی گیت اور ترانے ہیں وہ سب ایک طرف اور اقبال ؔ کا یہ مصرعہ ایک طرف، اقبال ؔ کا یہ مصرعہ باشندگانِ ہند کی ذمہ داریوں کو یاد دلاتا ہے کہ اس طرح سے مل جل کر رہیں کہ سب کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، اور داعیانِ توحید بھی اپنے فرائض کی تکمیل میں سرگرم عمل رہیں ۔
٭٭٭٭