صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
روبرو
محمد حمید شاہد
اردوافسانہ اور تنقید کے موضوع پر پہلا آن لائن انٹرویو۔ حرف کار (عالمی) فیس بک ادبی فورم
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اقتباس
محمد حمید شاہد
نوید غازی صاحب، آپ نے پہلا ہی سوال ایسا کر دیا کہ مجھے سنبھل سنبھل کر بات کرنا ہو گی۔ جناب میرے لیے سب اصناف محترم ہیں، تاہم شاعری کا تخلیقی عمل کچھ اور قرینے مانگتا ہے اور فکشن کے مطالبات الگ ہیں پھر شاعری کے اندر غزل اس طرح نہیں لکھی جا سکتی، جس طرح کہ آپ نظم لکھتے ہیں بالکل اسی طرح ناول کے تقاضے الگ ہیں اور افسانے کے الگ۔ اچھا اس بات کا صحیح تناظر سمجھنے کے لیے شمس الرحمن فاروقی صاحب کا وہ متنازعہ مکالمہ نما مضمون یاد کیجئے جس میں بڑی صنف سخن کی نشانی یہ بتائی تھی کہ وہ ہمہ وقت تبدیلیوں کی متحمل ہو سکتی ہے اور اس کسوٹی پر افسانے کو پرکھتے ہوئے فیصلہ سنا دیا تھا کہ
۔۔۔افسانے کی چھوٹائی یہی ہے۔ اس میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ نئے تجربات ہو سکیں، ایک آدھ بار تھوڑا بہت تلاطم ہوا اور بس
۔۔۔افسانے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا۔
۔۔۔اَفسانہ ایک معمولی صنف سخن ہے اور علی الخصوص شاعری کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا
۔۔۔تاریخ کم بخت تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی شخص صرف و محض اَفسانہ نگاری کے بانس پر چڑھ کر بڑا ادیب نہیں بن سکا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ بیانات فاروقی صاحب نے افسانے کی حمایت میں لکھتے ہوئے دیے تھے، مگر دیکھیئے کہ اس باب میں اس "کم بخت تاریخ" نے کیا عیاری اور چالبازی دکھائی۔ شاعر نثّار اور نقاد فاروقی کے کندھوں سے کندھے ملا کر فکشن نگار فاروقی کھڑا ہو گیا، "سوار اور دوسرے افسانے والا "۔ تہذیبی زندگی کا مرقع ہو جانے والے ناول "کئی چاند تھے سر آسماں" کا ناول نگار فاروقی۔ اب تو یہ والا فاروقی قدم آگے نکالتا ہے اور اپنی شاعری سے بڑھ کر توقیر،برتری اور قبولیت اسی "ناس مارے افسانے اور ناول" کے سبب پاتا ہے۔ صاحب جسے عمر بھر آپ اصناف پر حکمرانی کے لائق گردانتے رہے، اسے سب اصناف سے اعلیٰ و اولی قرار دیتے رہے، اس میں حوصلہ تھا، نہ تڑ، کہ ان تخلیقی تجربوں کو سہار سکتی جو اس کمزور، معمولی اور نہ بدلنے والی صنف نے کمال ہمت سے اور اپنے بھیتر کے دائروں اور بھنوروں کو بدل کر سہار لیے ہیں۔ جن دنوں فاروقی صاحب اسلام آباد آئے تھے تو میں نے نہایت ادب سے گزارش کی تھی کہ اصل قضیہ تخلیقیت ہے،شاعری یا نثر کی اصناف میں درجے بندی کا نہیں۔ اور یہاں بھی یہی دہرانا ہے کہ ہر صنف کا اپنا اپنا علاقہ ہوتا ہے۔ اس علاقے کے اندر رہ کر تخلیقی تجربے کی خوبی یا خامی کے اندازے لگائے جا سکتے ہیں اور لگانے بھی چاہئیں۔ نثر اور شاعری کی اصناف کے بیچ تفریق تو الگ رہی میں تو شاعری کی مختلف اصناف میں اس قسم کا موازنہ بھی موزوں نہیں سمجھتا ہوں۔
اب رہا اس سوال کا جواب کہ کیا ادب کی دیگر اصناف کے مقابلے میں افسانہ زندگی کے تجربات کے زیادہ تجربہ کو جھیلتا ہے، تو اس کا جواب ہو گا کہ ہاں، کیوں کہ افسانے میں واقعہ خیال ہو کر افق کو نہیں اٹھتا، خیال واقعہ ہو جاتا ہے یا کردار اور وہ سارے دکھ جھیلتا ہے جو اسے زماں اور مکان کے کھونٹے سے بندھ کر بھگتا ہوتے ہیں۔ تاہم زمان و مکاں کے اس جبر کے باوجود وہ اس میں اتھل پتھل کرنے کا تجربہ کرتے ہوئے تخلیقی امکانات یوں پیدا کرتا ہے کہ زندگی محض خیال نہیں ہو جاتی، لمحہ لمحہ گزرتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ شاعری کا نہیں ہے، زماں و مکان اس کے لیے محض مہمیز کا کام کرتے ہیں، واقعہ سانحہ ہو کر احساس کی سطح پر تحلیل ہو جاتا ہے اور ایک مصرع، ایک شعر یا ایک نظم کی چند سطروں کے بعد اس کے، اس تجربے سے اس طرح نہیں گزرنا ہوتا، جو افسانہ نگار کے مقدر میں ہوتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو شاعری اس کی مکلف بھی نہیں ہے اور یہی اس کا امتیاز بھی ہے کہ وہ جزئیات سے احتراز کرے اور واقعہ کو دھندلا دے۔ دوسری طرف دیکھیں تو جو شاعری کا امتیاز ہے وہ فکشن میں خامی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اور اس کا امتیاز یہ ہے کہ وہ زندگی کا بھرپور مظہر ہو، اس کے آہنگ اور لحن کے ساتھ۔ افسانے کی خوبی یہ ہے کہ اس کے بیانیہ کردار بہر حال برقرار رکھنا ہوتا ہے جب کہ شاعری اس کی پابند نہیں ہے بلکہ دیکھا گیا ہے بعض اوقات کرداری اور بیانیہ نظمیں اپنی تاثیر اس طرح، اور اس شدت سے برقرار نہیں رکھ پاتیں، جتنا کہ بیانیے کو توڑنے، اور کرداروں کو دھندلا کر مکمل ہونے والی نظمیں۔ دونوں اصناف کا اپنا اپنا علاقہ ہے اور انہیں اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔
٭٭٭