صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
اردو ادب کی رومانوی تحریک
ایک مطالعہ
غلام شبیر رانا
لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اختر شیرانی (اقتباس)
محمد داؤد خان اختر شیرانی رومانوی تحریک کے بنیاد گزاروں میںشامل ہیں۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے اور انھیں اردو کے شاعر رومان کی حیثیت سے بہت مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان کی مشہور رومانی نظمیں ’’اے عشق کہیں لے چل ‘‘ ، ’’آج کی رات ‘‘’’او دیس سے آنے والے بتا ‘‘ ، ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر ‘‘ان کے کمال فن کی دلیل ہیں۔ اختر شیرانی کی شاعری میں بیزار کن ماحول سے نجات کی تمنا، اخوت، امن و آشتی اور سکون قلب کی آرزو اور حسن فطرت کی جستجو کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اختر شیرانی نے اپنے اشہب قلم کی جولانیاں اس انداز سے دکھائی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ایک الگ دنیا آباد کرنے کے آرزومند تو ہیں لیکن اس کے لیے وہ سخت کوشی کے بجائے محض تخیل کی شادابی پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ نظام کہنہ کو سخت نا پسند کرتے ہیں اور ان کی یہ دلی خواہش ہے کہ مسموم ماحول سے گلو خلاصی کی کوئی صورت پیدا ہو۔ ان کے اسلوب میں حالات کی تبدیلی کی تمنا تو موجود ہے مگر آلام روزگار کے مہیب طوفان میں وہ اپنی خیالی دنیا کی جستجو کرتے کرتے سرابوں میں بھٹک جاتے ہیں۔ ان کی زندگی بہاروں کی جستجو میں کٹ گئی اس کے بعد وہ یہ تمنا کرتے ہیں کہ ممکن ہے انھیں اس زندگی کے بعد سکون نصیب ہو جائے۔ اختر اورینوی نے اختر شیرانی کے اسلوب کے بارے میں لکھا ہے :
’’اختر اس دنیا سے ہجرت کر کے ایک دوسری دنیا میں ، پھلوں سے بسی ہوئی دنیا میں ، حسن و رعنائی کی دنیا میں ، شراب و شباب کی دنیا میں چلا جانا چاہتا ہے تا کہ اس کی روح کو سکون نصیب ہو۔ ‘‘(7)
اختر شیرانی نے اپنی رومانی سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے جس مہتاب نما، خواب نما، دلکش و حسین، مثالی اور خیالی دنیا کے خواب دیکھ کر اپنی زندگی کو پر سکون رکھنے کی سعی کی اس کے پس پردہ ان کی زندگی کے جان لیوا صدمات کی تکلیف دہ کیفیات کے اثرات کے پرتو صاف دکھائی دیتے ہیں۔ محبت میں ناکامی، نو جوان بیٹے (جاوید محمود )کی اچانک وفات، ایک معتمد ساتھی مرزا شجاع کی خود کشی اور کئی عزیزوں کی دائمی مفارقت کے بعد ان کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ گیا لیکن ان کا پورا وجود کر چیوں میں بٹ گیا۔ وہ اپنے آنسو حسن و رومان کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر رومانوی شاعری کے ذریعے تزکیہ نفس کی صورت تلاش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں حسن و کیف کی بہار آفرینی، بے لوث محبت، ایثار اور اخوت کی فراوانی، انسانی ہمدردی اور خلوص کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری میں والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کی وہی کیفیت جلوہ گر ہے جو کیٹس کی شاعری کا اہم وصف ہے۔ قلبی احساسات اور بے ساختہ جذبات کا ایک سیل رواں ہے جو وقتی مسائل اور عارضی دشواریوں کو ریگ ساحل پر لکھی وقت کی تحریروں کے مانند بہا لے جاتا ہے۔
٭٭٭