صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں


ریاست اسلامی

نامعلوم

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

نقطۂ آغاز

جب اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اللہ کی طرف سے    تمام انسانیت کے لئے  اسلام کا پیغام لیکر آئے  تو سب سے  پہلے  آپؐ نے  اپنی زوجہ حضرت خدیجہ الکبریٰ(رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کو دعوت دی اور وہ ایمان لائیں، پھر آپؐ  نے  اپنے  چچازاد بھائی حضرت علیؓ کو اسلام کی دعوت دی اور وہ ایمان لائے، پھر اپنے  غلام حضرت زیدؓ کودعوت دی اور انہوں نے  قبول کی، اس کے  بعد آپؐ  نے  اپنے  رفیق اور دوست حضرت ابو بکر الصدّیق ؓ کو دعوت دی جو انہوں نے  بھی قبول کی۔ اس کے  بعد آپؐ  نے  اور لوگوں  کو اسلام کی طرف بلایا، بعض نے  قبول کیا اور بعض نے  انکار۔

جب حضرت ابو بکرؓ  ایمان لائے  تو انہوں نے  اپنے  ایمان لانے  کی خبر اُن لوگوں  کو دی جن پر اُنہیں  اعتبار تھا۔ حضرت ابو بکرؓ کا اپنے  لوگوں  میں  معتبر مقام تھا اور لوگ ان کا ساتھ پسند کرتے  تھے  اور اپنے  معاملات میں  اُن سے  مشورے  بھی کرتے  تھے۔ ا ن کے  ذریعہ حضرت عثمان ابن عفان، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف، حضرت سعد ابن ابی وقاص اور حضرت طلحہ ابن عبید للہؓ مشرف بہ اسلام ہوئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے  پاس آئے، ایمان قبول کیا اور عبادات کیں۔ پھر حضرت عامر ابن الجراح(ابو عبیدہ)ؓ نے  اسلام قبول کیا، پھر حضرت عبداللہ ابن عبد الأسد(ابو سلمہ)، الأرقم بن ابی ا الأارقم، عثمان ابن مظعون ؓ  وغیرہ اسلام میں  داخل ہوئے  اور پھر لوگ داخل ہوتے  رہے  یہاں  تک کہ مکہ میں  ہر جگہ اسلام کے  چرچے  عام ہو گئے  اور یہ قریش کے  درمیان گفتگو کا موضوع بن گیا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم دعوت کے  اس ابتدائی دور میں  لوگوں  کے  گھر جاتے  اور انہیں  بتاتے  کے  اُن کے لئے  اللہ کے  کیا احکام ہیں، وہی اللہ عبادات کے  لائق ہے  اور یہ کہ عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کریں۔ پھر آپؐ   نے  اللہ کے  اس حکم کی تعمیل میں  کھلے  طور پر اہلِ مکہ کو اللہ کے  دین کی دعوت دی:

﴿یٰآیَھُّا الْمُدَّثِّرُ﴾

اے  اوڑھنے  لپیٹنے  والے، ( ترجمہ معانی :سورۂ مدثر:آیت:۱)

اس وقت تک آپؐ   لوگوں سے  خفیہ طور سے  ملتے  تھے  انہیں  دین کی دعوت دیتے  اور اسلام پر جمع کرتے  تھے۔ آپؐ  کے  اصحاب کرامؓ  مکّہ کے  باہر پہاڑیوں  میں  چھپ کر نماز پڑھا کرتے  تھے۔ جب کوئی شخص اسلام میں  داخل ہوتا تو  آپؐ   اس شخص کو کسی اور صحابی کے  پاس بھیج دیتے  تاکہ وہ اپنے  نئے  ساتھی کو قرآن سکھائے۔ اسی طرح آپؐ  نے  حضرت خباب بن الارت کو مقرر کیا تھا وہ حضرت زینب بنت الخطاب ؓ اور ان کے  شوہر حضرت ؓ سعیدکو قرآن سکھائیں۔ حضرت عمر صاسی حلقے  میں  اسلام میں  داخل ہوئے، حضرت عمر ؓ کے   وہاں  پہنچنے  سے  آپ کی بہن اور بہنوئی کو بہت حیرت ہوئی تھی اور پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  محسوس کیا کہ یہ طریقہ کافی نہیں  ہے  چنانچہ آپؐ  نے  حضرت ارقم  ؓ کے   گھر کواس نئی تعلیم کا مرکز بنایا۔ اسی جگہ سے  مسلمانوں  کو سکھایا جانے  لگا، اسلام کی تعلیم دی جانے  لگی اور قرآن کی سمجھتے  ہوئے  تلاوت کی ترغیب دی جانے  لگی۔ جب کوئی حلقہ بگوش اسلام ہوتا تو اسے  اسی دار الأرقم بھیج دیتے۔ تین سال تک یہی سلسلہ تین سال تک چلا، مسلمانوں  کے  حلقوں  کو اسلام سکھانا، انہیں  نمازیں  پڑھانا، راتوں  کو تہجّد پڑھانا، نماز اور تلاوت کے  ذریعہ روحانیت کو تقویت دینا، انکے  اندر اللہ کی آیات کی فکرِ کامل اور اللہ کی مخلوقات کا تدبر بیدار کرنا، ان میں  قرآن کے  الفاظ و معانی کا فہم پیدا کرنا، اُن کو اسلامی افکار میں  ڈھالنا، مصیبت کے  وقت صبر کی تربیت دینا، آپؐ  نے  تربیت دی کہ مصیبتوں  میں  صبر کرنا اللہ کی اطاعت ہے۔ یہی احوال اس وقت تک رہے  یہاں  تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آیا:

﴿فَاصدَعْ بِمَا تُوئْ مَرْ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ﴾

پس تمہیں  جس چیز کا حکم ملا ہے  اسے  واشگاف بیان کر دو اور مشرکین سے  اعراض کرو۔

( ترجمہ معانی :سورۂ حجر:آیت:۹۴)

 صحابۂ کرامؓ کی تربیت

اپنی دعوت کے  ابتدائی دور میں  آپؐ  نے  لوگوں  کی عمر، حیثیت، جنس، اصل اور نسل سے  قطع نظر ہر اس شخص کو دعوت دی جس میں  آپؐ  نے  اسے  قبول کرنے  کی استعداد دیکھی۔ آپؐ  لوگوں  کو چن کر نہیں  بلاتے  تھے  بلکہ ہر ایک کو دعوت دیتے  اور اس شخص میں  قبولیت کو بھانپ لیتے، اسی طرح کئی لوگ اسلام میں  داخل ہوئے۔ آپؐ  اِن لوگوں  کی اسلامی تربیت بڑی فکر مندی سے  کرتے  اور اُنہیں  قرآن کی تعلیم دیتے۔ پھر اِن صحابہ کا ایک حلقہ بنا دیتے  تاکہ یہ خود دین کی دعوت آگے  بڑھائیں۔ یہ تعداد چالیس کے  قریب ہو گئی جس میں  مرد بھی تھے  اور عورتیں  بھی، زیادہ تر نوجوان تھے، یہ لوگ غریب بھی تھے  مالدار بھی، اِن میں  کمزور بھی تھے  اور قوی بھی۔ مومنین کی یہ جماعت جس نے  اسلام کو قبول کیا اور دعوت کا کام کیا، ان افراد پر مشتمل تھی:

حضرت علی ابن ابی طالب(عمر۸ سال)، حضرت زبیر بن العوام(عمر ۸ سال)، حضرت طلحہ ابن عبید اللہ(۱۱ سال)، حضرت ارقم بن ابی الأرقم(عمر ۱۲سال)، حضرت عبداللہ ابن مسعود(عمر ۱۴ سال)، حضرت سعید ابن زید(بیس سال سے  کم)، حضرت سعد ابن ابی وقاص(۱۷ سال)، حضرت سعود ابن ربیعہ(۱۷ سال)، حضرت جعفر ابن ابی طالب (۱۸ سال)، حضرت صہیب الرومی(بیس سال سے  کم)، حضرت زید بن حارثہ(قریب بیس سال)، حضرت عثمان ابن عفان(قریب بیس سال)، حضرت طلیب بن عمیر(بیس سال کے  قریب)، حضرت خباب بن الارت(قریب بیس سال)، حضرت عامر بن الفھیرۃ(قریب ۲۳ سال)، حضرت مصعب بن عمیر(۲۴ سال)، حضرت مقداد بن الأاسود (۲۴ سال) حضرت عبد اللہ بن جحش(۲۵ سال)، حضرت عمر بن الخطاب (۲۶ سال)حضرت ابو عبیدہ بن الجراح۲۷ سال)، حضرت عتبہ بن غزوان (۲۷ سال)، حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ ( ۳۰ سال)، حضرت بلال بن رباح ( ۳۰ سال)، حضرت عیاش بن ربیعہ ( ۳۰ سال)، حضرت عامر بن ربیعہ (قریب ۳۰ سال)، حضرت نعیم ابن عبد اللہ( ۳۰ سال)، حضرت عثمان ابن مظعون بن حبیب( تیس سال)، ، حضر ت عبد اللہ ابن مظعون بن حبیب(۱۷ سال)، ، حضرت قدامہ ابن مظعون بن حبیب(۱۹ سال)، ، حضرت السائب ابن مظعون بن حبیب(۲۰ سال)، حضرت ابو سلمہ عبداللہ ابن الأسد المخزومی (قریب تیس سال)، حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف( ۳۰ سال)، حضرت عمار بن یاسر(۳۰ تا ۴۰ سال)، حضرت ابو بکر الصدیق(۳۷ سال) حضرت حمزہ بن عبد المطلب(۴۲ سال)، حضرت عبیدہ بن الحارث (۵۰ سال) اِن کے  ساتھ عورتیں  بھی کئی تھیں جنہوں نے  اسلام کی پکار پر لبیک کہا۔ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔

تین سال کی اس محنت سے  صحابۂ  کرام کی یہ جماعت تیار ہوئی جس کا ہر فرد اپنی فکر و عمل کے  لحاظ سے  مکمل اسلامی شخصیت کا حامل تھا، ان میں  سے  ہر ایک فرد کے  تصورات اسلامی تھے، وہ اپنی فکر و عمل کے  لحاظ سے  ایمان کے  بلند ترین مقامات پر فائز تھے۔ اب آپؐ کی فکر مندی کم ہوئی اور اطمینان ہوا کہ یہ جماعت اللہ سبحانہٗ  و تعالیٰ  کا حکم آتے  ہی قریش کے  سامنے  اپنے  دین کی دعوت لے  کر کھڑی ہو جائے گی۔

 دعوت کی شروعات

آپؐ کی بعثت کے  شروع سے  اسلامی دعوت کی بات ظاہر و واضح تھی، مکّے  کے  لوگ جانتے  تھے  کہ محمدؐ  ایک نئے  دین کی طرف دعوت دے  رہے  ہیں  اور کئی لوگ آپؐ  کے  ساتھ بھی ہو گئے  ہیں۔ اہلِ مکہ یہ بھی جانتے  تھے  کے  آپؐ پنے  ساتھیوں  کی تربیت کر رہے  ہیں  اور یہ بات بھی عام تھی کہ صحابۂ  کرام مختلف حلقوں  میں  بنٹ کر دین رہے  ہیں  اور اپنے  اسلام قبول کرنے  کی بات قریش پر ظاہر نہیں  کر رہے  ہیں۔ اہلِ مکہ اس بات سے  بے  خبر تھے  کہ اس دعوت کو کس کس نے  قبول کیا ہے  اور نہ وہ یہ جانتے  تھے  کہ یہ لوگ کہاں  جمع ہو کر دین سیکھتے  ہیں۔ اس لئے  جب  آپؐ نے  باقاعدہ دین کا اعلان کیا تو یہ لوگوں  کے لئے  کوئی نئی بات نہ تھی، وہ تو سمجھ ہی رہے  تھے، اُن کے لئے  نئی بات تو اس مسلم جماعت کے  افراد کی شناخت تھی جو اب تک اُن سے  پوشیدہ تھی۔ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ   اور ان کے  تین دن بعد حضرت عمر بن الخطاب  ؓ کے  اسلام لانے  سے  مسلمانوں  کو بہت مدد ملی اور اب اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا:

﴿فَاصدَعْ بِمَا تُوئْ مَرْ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ     اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْنَ خلا  الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھاً اٰخَرَ ج فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ﴾

پس تمہیں  جس چیز کا حکم ملا ہے  اسے  واشگاف بیان کر دو اور مشرکین سے  اعراض کرو۔ مذاق اڑانے  والوں  کے لئے  ہم تمہاری طرف سے    کافی ہیں، جو اللہ کے  ساتھ دوسرے  معبود ٹھہراتے  ہیں  پس عنقریب اُنہیں  معلوم ہو جائے  گا۔

( ترجمہ معانی :سورۂ حجر:آیت:۹۴)

اب اللہ کے  حکم کے  مطابق آپؐ نے  اس جماعت کو لوگوں  پر آشکارا کر دیا، صرف چند لوگ رہ گئے  تھے  جن کا قبول اسلام ظاہر نہیں  ہوا تھا اور فتح مکہ تک صیغۂ راز میں  رہا، بہرحال اس جماعت کو  آپؐ نے  دو صفوں  میں  منظم کیا  ایک کے  آگے  حضرت عمر بن الخطاب ؓ اور دوسری صف کے  آگے  حضرت حمزہ تھے۔ قریش نے  کبھی ایسی صف بندی اور نظم دیکھا نہ تھا اور یہ اُن کے لئے  ایک عجوبہ تھا۔ آپؐ  ان سابقوں  الأولون کو لے  کر کعبۃ اللہ تشریف لائے  اور سب نے  کعبہ کا طواف کیا۔ یہ وہ موڑ تھا جب اسلام کھل کر سامنے  آیا اور پہلا مخفی دور ختم ہوا جس میں  دعوت صرف اُن لوگوں  کو دی جاتی تھی جن سے  پہچان تھی اور میں  قبولیت کی استعدادپائی گئی تھی۔ اب وہ دور شروع ہوا جہاں  لوگوں  سے  عام خطاب کیا گیا۔ اس طرح معاشرے  میں  ایمان اور کفر کے  مابین ٹکراؤ شروع ہوا۔ صحیح اسلامی افکار اور فاسدکفریہ تصورات کے  بین مقابلہ آرائی ہوئی۔ یہاں  سے  جو دوسرا دور شروع ہوا اس میں ایک طرف تو دونوں  افکار کے  حاملین کے  درمیان تفاعل ہوا اور دوسری طرف کشمکش۔

اس دور میں  مشرکین قریش نے  دعوت کی مزاحمت بھی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ رسول کی ایذا رسانی بھی۔ مختلف طریقوں  سے  آپؐ  کو اور آپؐ  کے  صحابۂ  کرامؓ کو اذیتیں  دی جاتی تھیں، آپؐ  کے  گھر پر پتھراؤ بھی ہوا، ابو لہب کی بیوی ام جمیل  آپؐ  کے  گھر کے  سامنے  کچرا  اور گندگی پھینک دیتی، آپؐ  نے  ان سب کو نظر انداز کیا۔ ابو جہل نے  ایک دفعہ اپنے  بتوں  پر قربان کی گئی بھیڑ کی آنتیں آپؐ  پر ڈال دیں، آپؐ  چپ چاپ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  گھر گئے  اور خود کو اس نجاست سے  پاک کیا۔ اس سے  آپؐ  مایوس ہونے  کے  بجائے  اپنے  ارادے  اور دعوت میں  اور مضبوط ہی ہوتے  تھے۔ قریش کا ہر قبیلہ مسلمانوں  کو دھمکاتا اور ایذائیں  دیتا تاکہ اس قبیلے  میں  جو کوئی اسلام کی دعوت کو مان چکا ہو وہ اُس سے  پھر جائے۔ ایک قبیلے  نے  دیکھا کہ اس کا ایک حبشی غلام سیدنابلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو گئے  ہیں  تو انہیں  جلتے  سورج کے  نیچے  ڈال دیا اور ان کے  سینے  پرپتھر رکھ کر مرنے  کے لئے  چھوڑ دیا۔ سیدنا بلال اس حالت میں  بھی صرف ’’احد  احد‘‘ کہا کرتے  اور اللہ کی خاطر ہر تکلیف برداشت کرتے  تھے۔ ایک مسلم خاتون کو اتنی اذیتیں  دیں  کہ وہ تاب نہ لا سکیں  اور ختم ہو گئیں  لیکن اسلام کا دامن چھوڑ کر اپنے  باپ دادا کے  دین کو نہ اپنایا۔

مسلمانوں  نے  ہر قسم کی مصیبتیں، اذیتیں، ذلتیں  اور محرومیاں  برداشت کیں، صرف اس مقصد سے  کہ اپنے  رب کی خوشنودی حاصل کر لیں۔

٭٭٭٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں   

   ورڈ فائل                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول