صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
اندھیروں کا رپورٹر
اور دوسرے افسانے
رضوان الحق
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
اندھیروں کا رپورٹر (اقتباس)
نکڑ پر پہنچ کر طالب کچھ لمحوں کے لیے ٹھٹک گیا، وہاں سے کئی گلیاں جاتی تھیں اس لیے وہ سوچ میں پڑ گیا کہ اب کدھر جاؤں ؟ اس نے ساری گلیوں کی طرف مڑ مڑ کے دیکھا لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کدھر سے جانا چاہیے، ساری گلیاں اندھیری تھیں ، تھوڑی دیر سوچ بچار کر اس نے مغرب کی جانب جانے والی گلی کا انتخاب کیا اور آگے بڑھنے لگا، رات اندھیری اور گلی سنسان تھی، بجلی شام سے ہی حسب معمول گل تھی۔ گرمی اور امس عروج پر تھی، ایک روز پہلے بارش ہوئی تھی اس لیے جہاں تہاں ٹوٹی سڑک پر پانی بھرا ہوا تھا۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کیچڑ سے بچ پانا مشکل تھا۔ تھوڑی دور آگے بڑھنے پر ایک گھر کی روشنی چھن چھن کر کھڑکی سے باہر نکل رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر طالب نے گھڑی دیکھی دس بج چکے تھے۔ اس نے گلے میں پڑے کیمرے کو درست کیا اور چلنے کی رفتار تیز کر دی۔
طالب یہ
سوچ کر فکر مند ہو گیا کہ مشاعرہ دس بجے شروع ہونا تھا اور اس سے پہلے ایک
پریس کانفرنس بھی ہونی تھی، میں ابھی تک یہیں ہوں ، نو منتخب چیر مین صاحب
نے ساڑھے آٹھ بجے تک گھر پہنچنے کو کہا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ
شاعروں ، بیرونی مندوبین اور شہر کے معزز لوگوں کے کھانے اور ’’پینے‘‘ کا
انتظام گھر میں ہی کیا گیا ہے، اس لیے تم بھی گھر ہی آ جانا، وہیں سب سے
تعارف بھی ہو جائے گا اور کھانا پینا بھی۔ پھر سب لوگ ساتھ میں مشاعرہ گاہ
چلیں گے۔ اس نے یہ سوچ کر کہ کہیں سب کچھ وقت ہی سے نہ شروع ہو گیا ہو
اپنی رفتار بڑھا دی لیکن چند لمحوں بعد ہی اس نے یہ سوچ کر اپنے آپ کو
تسلی دے لی کہ مشاعرہ چیر مین صاحب کرا رہے ہیں اور ان کا کوئی بھی
پروگرام وقت سے کبھی نہیں شروع ہوتا ہے، اس لیے یہ پروگرام بھی وقت سے
نہیں شروع ہونا چاہیے اور اگر تھوڑی دیر بھی ہو گئی تو کیا فرق پڑتا ہے؟
آج تو جشن کا دن ہے۔ لیکن طالب کے بھوک کافی لگ چکی تھی اس لیے اس نے سوچا
کہ پروگرام جب بھی شروع ہو جتنی جلد ہو سکے وہاں پہنچ کر کھانا کھا لینا
چاہیے، کھانے کے وقت ہی سب سے ملاقاتیں ہو پاتی ہیں ۔ جلسوں اور مشاعروں
میں تو دھیان رپورٹ میں لگا رہتا ہے، اس وقت سلام دعا کے علاوہ کسی سے
کوئی خاص بات نہیں ہو پاتی ہے۔ اس لیے جتنی جلدی ہو سکے مجھے وہاں پہنچ
جانا چاہیے۔ پھر اگر شاعروں اور مندوبین سے اس جلسے اور مشاعرے کے بارے
میں گفتگو ہو گئی تو رپورٹ اور جاندار ہو جائے گی۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی
رفتار اور بڑھا دی، ابھی وہ یہی سب سوچ رہا تھا کہ اسے اچانک محسوس ہوا کہ
کوئی اسکا تعاقب کر رہا ہے۔ جب وہ چلتا ہے تو تعاقب کرنے والا بھی ساتھ
ساتھ چلنے لگتا ہے اور جب رکتا ہے تو تعاقب کرنے والا چھپ جاتا ہے۔ اس نے
پیچھے مڑ کر دیکھا تو اندھیرے میں کوئی نظر نہ آیا البتہ کہیں کہیں
اندھیرا کچھ زیادہ گہرا لگ رہا تھا، لیکن کہنا مشکل تھا کہ وہاں واقعی
کوئی تھا یا محض کسی کے ہونے کا التباس تھا۔ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھتے ہی
اس کا پیر کیچڑ میں پڑ گیا اور اس کے پیر بری طرح سے کیچڑ سے بھر گئے۔
اب سوال یہ تھا کہ پیر کیسے صاف کیے جائیں ؟ اس نے اپنے چاروں طرف
دیکھا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اگر کوئی ایسی چیز وہاں رہی بھی
ہوگی کہ جس سے پیر صاف کیے جا سکیں تو اس اندھیرے میں نظر نہ آئی۔ اس نے
اندھیرے میں ہی ٹٹولنا شروع کیا لیکن ہر بار پولی تھن ہی اس کے ہاتھ لگی،
جن میں کوئی نہ کوئی گندگی ضرور لگی ملتی، بار بار پالی تھن ہاتھ لگنے سے
وہ جھنجلا گیا۔ ’’اف یہ پالی تھن نہ جانے کہاں سے آ گئیں ہیں جدھر دیکھو
ادھر بس پالی تھن ہی پالی تھن ہیں ۔‘‘
اس نے ان دنوں کو یاد کیا جب کہیں بھی پالی تھن کا نام و نشان نہ
تھا، یہ کتنی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں ۔ اسے ٹی وی کا وہ اشتہار یاد آ
گیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر اسی رفتار سے پالی تھن کا استعمال ہوتا رہا
تو وہ دن دور نہیں جب ساری دنیا پالی تھن سے ڈھک جائے گی اور اشتہار میں
پوری دنیا پالی تھن سے ڈھکی نظر آتی۔ کیونکہ ان کے سڑنے گلنے میں لاکھوں
برس لگتے ہیں ، تب تک نہ جانے کتنی پالی تھنیں استعمال ہو چکی ہوں گی۔
طالب پالی تھنوں کو چھوڑ کر آگے چل دیا تھوڑی دوری پر ایک گھر کی
کھڑکی سے روشنی باہر نکل رہی تھی۔ روشنی کو دیکھ کر وہ یہ سوچ کر آگے بڑھا
کہ وہاں روشنی میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور مل جائے گا جس سے میں اپنے پیر
اور چپل صاف کر لوں گا۔ اس بار اس کی رفتار بہت ہی دھیمی تھی کہ کہیں
پیروں کا کیچڑ کپڑوں میں بھی اچھل کر نہ لگ جائے۔ خاص طور سے دایاں پیر جس
میں کیچڑ لگا ہوا تھا وہ بہت ہی آہستہ سے اٹھا رہا تھا۔ اگر کوئی دور سے
دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ اس کے پیر میں لنگ ہے۔ کچھ دیر میں وہ روشنی کے
قریب پہنچ گیا۔ وہاں کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا جب اطمینان ہو گیا کہ
کوئی اسے نہیں دیکھ رہا ہے تو اس کی نظریں پیر اور چپل صاف کرنے کے لیے
کچھ ادھر ادھر تلاش کرنے لگیں ۔ تھوڑی دوری پر کوڑے کا ایک چھوٹا سا ڈھیر
نظر آیا، وہاں دو کتّے کچھ کھانے کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے، کوڑے کے ڈھیر
پر پالی تھن کے علاوہ کاغذ اور کپڑے کے کچھ چیتھڑے بھی نظر آ رہے تھے۔
انھیں دیکھ کر وہ کوڑے گھر کے پاس پہنچ گیا اور دھت … کہہ کر سب سے پہلے
کتوں کو بھگایا اور جھک کر داہنے ہاتھ سے کپڑے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر مٹھی
میں دبا لیا اور اسے موڑ کر پیر کے پاس لے جانے لگا کہ اسی دوران اسے پیٹھ
اور گردن میں کھجلی محسوس ہوئی تو اس نے کپڑا بائیں ہاتھ میں پکڑا اور چپل
صاف کرنے سے پہلے پیٹھ اور گردن کھجلانے لگا۔ وہاں کافی پسینا آیا ہوا تھا
اور گھموریاں بھی تھیں ایک عجیب سی لذت کا احساس ہوا، تھوڑی دیر کھجلانے
کے بعد ایک بو سی محسوس ہوئی اس نے ادھر ادھر مڑ کر دیکھا کیا کوئی عورت
آس پاس ہے؟ لیکن کوئی عورت نظر نہ آئی، پھر بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے کپڑے
کی طرف دھیان گیا تو احساس ہوا کہ شاید بو وہیں سے آ رہی ہے۔ اب جو غور
کیا تو ہاتھوں میں عجب سی چپچپاہٹ بھی محسوس ہوئی اسے تجسس ہوا دیکھوں کہ
کیا ہے؟ جب وہ اس کپڑے کو ناک کے قریب لے گیا تو پیپ اور خون کا ملا جلا
سا مادہ نظر آیا اور بو کا ایک تیز بھبکا اس کی ناک میں گھسا، اس نے جلدی
سے کپڑے کو پھینک دیا۔ ’’اُف یہ تو حیض کا لتّا …‘‘
٭٭٭