صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ریت ابھی کتنی پیاسی ہے
راحت نسیم ملک
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
بکھرا پڑا ہوں کب سے خلاؤں کے درمیاں
میں بٹ کے رہ گیا ہوں خداؤں کے درمیاں
ہیں سب ہتھیلیوں پہ کٹے سر دھرے ہوئے
اس شہرِ بے ایماں میں اناؤں کے درمیاں
کتنے ستارے رات کی گدڑی میں کھو گئے
اِک کہکشاں ہے دفن گھپاؤں کے درمیاں
دل کے مکاں کو درد کا آسیب راس ہے
کٹتی ہے خوب اندھی بلاؤں کے درمیاں
سب سائے سبز زرد رُتیں ساتھ لے اُڑیں
اُجڑے کھڑے ہیں پیڑ اب گاؤں کے درمیاں
کیا جانے کون خاک مجھے کھینچ لے نسیم
ہوں ڈولتی پتنگ ہواؤں کے درمیاں
٭٭٭
بساطِ عمر پہ ہر خواب میں نے ہار دیا
ترے خیال نے پھر بھی بہت قرار دیا
مجھے سمیٹ لیا ہے تری جدائی نے
بکھر چکا تھا ترے درد نے سنوار دیا
ہوا نے کر دیا بے برگ مجھ کو پت جھڑ میں
اسی ہوا نے مجھے پھر سے برگ و بار دیا
بجا یہی ہے کہ جینا مجھے نہیں آیا
میں کیسے مان لوں دشمن نے مجھ کو مار دیا
ہوں یوں تو زندہ مگر جل رہا ہے پوروں میں
جو زہر وقت نے خوں میں مرے اُتار دیا
بیاں کی خُو ہی کہاں تھی نسیم کم گو میں
سُخن کا رنگ اسے تو نے خُوئے یار دیا
٭٭٭