صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
ریگزار میں پھول
صابر شاہ صابرؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
پھُول مُرجھائے غُنچہ دہن اُٹھ گئے
آئی پت جھڑ تو جانِ چمن اُٹھ گئے
بات کرنا بڑے ظرف کی بات ہے
جب بحث چھڑ گئی کم سُخن اُٹھ گئے
آنکھ میں دشمنوں کی بنے دھول ہم
بن کے سر حد پہ خاکِ وطن اُٹھ گئے
خاکساری نے ذرّوں کو چمکا دیا
ہم بھی سورج کی لے کر کرن اُٹھ گئے
ننگے صابرؔ تھے سب ماں کی آغوش میں
اُٹھنے والے کہاں بے کفن اُٹھ گئے
٭٭٭
***
اے گلشنِ حیات تجھے کون ڈس گیا
کلیوں سے پختگی گئی پھولوں سے رس گیا
موسم تمام تیری ہنسی کو ترس گیا
کتنا اُداس موسمِ گل کا برس گیا
رنگِ حنا سمجھ کے تیرے ہاتھ رنگ لے
دل کا لہو ہے اشک بنا تو برس گیا
بچھڑے ہوؤں کے غم ہمیں صیّاد اب نہ دے
ایک عندلیب اور بھی نزدِ قفس گیا
فردوس جیسے ارض کو صابرؔ اُجاڑ کے
انسان ظلم کرنے ستاروں میں بس گیا
٭٭٭