صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


سوانح

رضیہ بٹ


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

                                       اقتباس

وقت کا دھارا ازل سے بہتا چلا آ رہا ہے اور  اس ابد تک بہتا رہے گا، اس کے سنگ سنگ ہی زندگی بہتی چلی جا رہی ہے ، زندگی اپنے بہاؤ میں انسانوں کو ایک زاروں کی طرح بہاتی چلی جاتی ہے ، ریگ زار کبھی اپنی جگہ سے ہل کر وہیں جم کر ٹک جاتے ہیں ، کچھ نئے شامل ہو جاتے ہیں ، وہ بھی رکتے ہیں  آگے بڑھتے ہیں ، پھر ٹھہر جاتے ہیں ، غرضیکہ زندگی سے چمٹے ریگ زاروں کا سلسلہ ازل سے چل رہا ہے ، اور اب تک چلتا رہے گا، انسان ایسا ہی ریت کا ذرہ ہے جو وقت کے دھارے میں زندگی سے لپٹا ہوا ہے ، کبھی زندگی نزدیک ہی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے ، کبھی دور تک چلا جاتا ہے ، یہ نزدیکی اور دوری ماہ و سال میں ماپی جاتی ہے ، یہی عمر کہلاتی ہے ، عمر چند لمحے بھی ہو سکتی ہے ، چند ماہ، چند سال اور سالہا سال بھی ہو سکتی ہے ، عمر کے بھی کئی رخ، کئی زاوئیے  اور کئی جہتیں ہوتی ہیں ،۔۔۔عمر انسان کا وہ عرصہ ہے جو وہ زندگی کے سنگ گزارتا ہے ، ہر انسان کا یہ عرصہ ایک جیسا نہیں گزرتا ہے ۔۔اس کے رخ زاویے اور جہتیں ہر انسان کیلئے مختلف ہوتی ہیں ، اس عرصے کا خاتمہ بھی ہر بندے کیلئے ایک جیسا نہیں ہوتا، کہیں زندگی ایک دم ہی ناطہ توڑ لیتی ہے ، کہیں رینگ رینگ کر گزرتے ہوئے جینے والے کو اذیت اور عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے ، زندگی اپنا وہ سرمایہ جو جیتے جاگتے لوگ انسان کی صورت میں اٹھائے اٹھائے چلی جاتی ہے ، بالآخر موت کے حوالے کر دیتی ہے ، زندگی جیتی ہی مرنے کیلئے ہے ۔

ہر انسان کی زندگی تھوڑی ہو یا زیادہ وقت اپان کردار ادا کرتا ہے ، کبھی سہانا بن کر، کبھی ڈراؤنا بن کر، نشیب و فراز میں سے گزرتا ہے ، دکھ، خوشی، غم، فکر، انتشار، کامیابی،ناکامی سبھی کو لپیٹ میں لے کر چلتا ہے ۔میں جو کہ وقت کے ساتھ زندگی کے بہاؤ میں بہتے ہوئے تقریباً پون صدی گزار چکی ہوں ، اب جی چاہتا ہے ، کہ پلٹ کر دیکھوں کہ ان بیتے سالوں میں نے زندگی کے ساتھ یا زندگی نے میرے ساتھ کیسا  نبھا کیا ہے ، یادداشت کے جن لمحوں کو میں چھو سکوں گی انہیں اکھٹا کرنے کی کوشش کروں گی، میں نے آدھی صدی سے زیادہ قلم کا قلم کا استعمال کیا ہے ، اپنے قارئین کیلئے معاشرے کے ہر پہلو پر کچھ نہ کچھ  لکھنے کی کوشش کی ہے ، اللہ تعالی کا احسان عظیم ہے ، کہ لوگوں نے مجھے بڑی محبت دی، بہت کچھ جانے کی کرید اور جستجو بھی فطری بات ہے ۔۔۔۔ان کے ماضی کو حال میں لا کر جاننے کا شوق ہوتا ہے ، کم از کم میری خواہش تو ضرور ہوتی ہے ، کہ جو انسان مجھے ملا ہے ، یا جس سے میرا غائبانہ تعارف ہوا، میں ان کے بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے کے ہر دور کو اسکرین پر چلنے والی فلم کی طرح دیکھو۔۔۔۔۔ضروری نہیں کہ صرف مشہور شخصیات کے حوالے سے ہی مری یہ خواہش ابھرتی ہے ، بعض اوقات تو میں سڑکے کے کنارے کھڑے کا سہ گدائی پکڑنے انسان کے متعلق بھی جاننے کی متمنی ہوتی ہوں ۔۔۔۔ذہن میں کئی سوال ابھرتے ہیں ۔

کیا یہ شروع ہی سے ایسا ہے ؟

اس کا بچپن کیسا ہو گا؟

اس نے زندگی کو کیسا پایا ہو گا؟

ی کبھی خوشیاں بھی اس پر مہربان ہوئی ہوں گی؟

خیر

یہ تو میری اپنی سوچ اور اپنا تجسس ہے ، ہو سکتا ہے کوئی اس انداز سے نہ سوچتا ہو لیکن مجھے یقین ہے میرے قارئین جو پچاس سال سے زیادہ عرصے سے مجھے پڑھ رہے ہیں ان کے سامنے اگر میں اپنے چوہتر پچھتر سالوں کے احوال اکھٹے کر کے رکھ دوں تو وہ ضرور بخوشی جو کچھ لکھ رہی ہوں اسے پڑھیں گے ۔

پیشتر اس کے کہ میں اپنے اس دنیا سے متعارف ہونے کے متعلق اور اس کے بعد سالوں پر پھیلے واقعات کا احاطہ کروں ، میں کچھ اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بھی لکھوں گی۔میرا تعلق ایک ممتاز کشمیر گھرانے سے ہے ، ہمارے آبا و اجداد کشمیر کے ایک خوبصورت اور جنت نظیر گاؤں گلبرگ کے رہنے والے تھے ، گلبرگ سری نگر کا ایک گاؤں تھا، پھولوں اور پھلوں سے لدا ہوا، قلقل کرتے ہوئے صاف و شفاف پہاڑی چشموں سے ترنم پیدا ہوتا تھا، ہریالی کا لبادہ اوڑھے یہ علاقہ اراضی جنت تھا، یہاں خوشبودار سیب اتنی بہتات میں تھے کہ کہا جاتا ہے ، ہو سیب پیڑ سے زمین پر از خود گر جاتا اسے کھایا نہیں جاتا تھا، بلکہ گایوں بھینسوں کو ڈال دیا جاتا تھا، سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ گائیں اور بھینسیں اتنے سیب کھاتی تھیں کہ ان کے دودھ سے بھی سیبوں کی خوشبو آتی تھی، واللہ اعلم یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں ، لیکن یہ سب حقیقت ہے ، کہ کشمیری سیبوں کی خوشبو میں کلام نہیں ، بچپن میں مجھے یاد ہے اباجی کشمیر گئے تھے اور وہاں سے سیبوں کی پیٹی لائے تھے ، ان سیبوں کی خوشبو اور مہک سارے گھر میں پھیل گئی، وہ خوشبو سے میرے اندر اب  بھی مقید ہے ، سو اگر سیب ہی سیب کھانے والے گائے دودھ سے سیبوں کی خوشبو آتی تھی، تو یہ بات مغالطہ بھی نہیں ہو سکتی، خیر۔۔۔۔۔گلبرگ میں زعفران بھی پیدا ہوتا ہے ، جس کا سونے کی  رنگت مخصوص خوشبو والا قہوہ کشمیری لوگ اب بھی بے حد پسند کرتے ہیں ، بشرطیکہ زعفران کشمیری ہو۔

ہماری دادی اماں اور بھی بیشمار خوبیاں اس خطہ زمین کی بیان کرتی تھی، اس حسین خطے میں بسنے والے بھی حسین تھے ، درا قد بھرے بھرے جسموں اور سرخ و سپید رنگت والے مرد اور نازک اندام حسین و جمیل عورتیں ۔۔۔۔۔جن کی سنہری سرخی مائل رنگت ملاحت لئے ہوتی تھی، کچھ خواتین کی رنگت گلابی چائے ایسی ہوتی تھی پاک صاف فضا، پاکیزہ ماحول، قدرت کا لازوال حسن میں جب بھی ان سب چیزوں کا تصور کرتی ہوں تو حیرانی ہوتی ہوں ، کہ ہمارے آبا و اجداد نے یہ خطہ بے نظیر کتنے دکھ سے چھوڑا ہو گا، اپنی سرزمین سے جدا ہونا تو ویسے ہی اذیت کا باعث ہوتا ہے ، اس پھولوں میٹھے چشموں اور زعفرانی مہک کے علاقوں سے وہ کیسے جدا ہوئے ۔

ہمارے آبا و اجداد مدتوں سے کشمیر میں آباد تھے ، ہمارا سلسلہ نسب جرنیل گلاب سنگھ تینترا سے ملتا ہے ، یہ بہت بہادر فوجی تھے اور مہاراجہ کشمیر کے دست راست تھے ، انہی کی اولاد مشرف ب اسلام ہوئی اور انہیں میں سے ہمارا خاندان ہے ، یہ تینترے بہت جنگجو اور سپہ گیری ماہر تھے ، کشمیری قوم کے متعلق یونہی مشہور کر دیا گیا تھا، کہ یہ بزدل قوم ہے ، لیکن جسے قبیلے سے ہمارے بزرگوں کا تعلق تھا۔وہ بہت بہادر نڈر اور س چشم تھی، چنانچہ یہ خوبیاں اب بھی نسل در نسل چلتی ہمارے کرداروں کا حصہ بنی ہوئی ہیں ۔

لگ بھگ اٹھارویں صدی کے شروع میں ہمارے آبا و  اجداد نے نقل مکانی کی، جس وجہ کشمیر میں قحط بتائی جاتی ہے ، قحط میں غالباً فصلیں پھل پھول سوکھ گئے ہوں گے او ویرانی نے ڈیرہ جما لیا ہو گیا،روزگار  کی صورت نہ رہی ہو گی، اسی لئے گھر بار ،زمینیں ، باغات اور زعفران کے کھیت چھوڑنے پڑے یہ لوگ  قافلہ در قافلہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کی ہو گی، بہادری کے ساتھ جمالیاتی حس رکھنے والے یہ خوبصورت لوگ پنجاب کے مختلف علاقوں میں جا پہنچے تھے ۔

میں جہاں تک خاندانی ہسٹری ٹریس کر سکی ہوں ،ہمارے جد امجد جو کشمیر سے آئے دو بھائی تھے ، ایک کا نام جم جو غالباً پورا نام جمشید تھا، دوسرے کا ہل تھا، ان کے ساتھ ان کے بال بچے اور چچا زاد ماموں اور دیگر رشتے دار بھی آئے تھے ، سب نے سیالکوٹ کا نواحی علاقہ محلہ رنگپور رہنے کیلے پسند کیا، یہ تب بالکل غیر آبادی ہوتا تھا، اور ان لوگوں نے سر چھپانے کیلئے چھوٹے چھوٹے کچے گھر بنالئے ، تلاش معاش کیلئے تنگ و دو شروع کر دی ہو گی، ہاتھ پیرے مارے ہوں گے ، اور زندگی سے کشمیر سے بالکل مختلف ماحول میں نباہ کرنے کی عادت ڈالی ہو گی، سنا ہے کچھ لوگ پنجاب کی گرمی نہ برداشت کر سکتے تھے اس لئے آہستہ آہستہ واپس جانے لگے ، انکا کیا حال ہوا معلوم نہیں ۔

ہمارا خاندان حجم کی اولاد سے چلا، جم کا بیٹا الا دتہ اور انکا بیٹا نور الدین تھا،یہ غالباً ہمارے اباجی کے پر داد تھے ، ہمارے دادا کا نام کریم بخش تھا اور یہ چار بھائی اور دو بہنیں تھے بھائی رنگپور ہی میں رہے ، نہیں ایک تو قصبہ جا مکئے چٹھ میں بیاہی گئی، دوسری بھی کسی قریبی قصبے میں ، انکی اولادوں سے ہمارا میل جول نہیں ہے ، کبھی کبھار کسی کا نام سننے میں آ جاتا ہے ، ہمارے دادا کے بھائیوں کی اولادیں سیالکوٹ ہی میں رہیں ، اس لئے وہ سب لوگ آپس میں لتے جلتے رہتے ہیں ، رنگپور میں زیادہ گھر ایسے ہی رشتے داروں کے تھے ، جو اب بھی ہیں ۔

جم اور گل تینترا کے ساتھ ان کے اور رشتہ داروں نے بھی کشمیر چھوڑا تھا، ان میں سے ایک خاندان ہجرت کر کے چین کی طرف نکل گیا تھا، دوسرا پشاور کی سمت اس نسل میں سے ایک نوجوان نے قندھار میں بادشاہت بھی قائم کر لی تھی، جو صرف اس کی زندگی تک ہی محدود رہی، پھر بغاوت ہوئی اور انہیں وہاں سے بھاگنا پڑا۔انکی اولاد  پہنچیں کہاں آباد ہوئیں ، ان بکھرے لوگوں کا ہمارے بزرگوں کو بھی پتا نہ چل سکا۔

گل اور جم نے سیالکوٹ آ کر کاغذ کا کام شروع کر دیا تھا، کپڑے کے چیتھڑوں سے وہ کاغذ بناتے تھے ، جو موٹا اور قدرے کھرے دا ہوتا تھا، یہ کام انہوں نے کافی  کامیابی سے چلایا، یہ کاغذ بہت مضبوط ہوتا تھا، ٹوٹتا بھی نہیں تھا، اور یہ سرمایہ کاری دستاویزات اور عدالتی کاموں میں لکھنے میں استعمال ہوتا تھا، اسی صنعت کو ہمارے دادا جان نے بھی اپنایا اور کاغذ کو قدرے ملائم اور پتلا کرنے کی کوشش کی، اس کام میں انہوں ے اپنے تینوں بھائیوں کو بھی لگایا، سب بھائی مل کر کام کرتے رہے ، لیکن اس کی آمدنی اتنی نہ تھی کہ چار خاندان اس پر پل سکتے ہمارے داد کی شادی سیالکوٹ  کے بہت بڑے کشمیری خاندان میں ہوتی تھی ہماری دادی کے والد فوجی تھے ، بڑے بھائی مولوی پیراں دتہ بہت مشہور حکیم تھے ، جن کک شہرت نہ صرف  پنجاب ہی میں نہیں یوپی اور دہلی میں پھیلی ہوئی تھی، ایک بھائی شہاب تھے ، جو باپ کی زمین سنبھالتے تھے ، انکا گھر بہت بڑا اور عالیشان تھا، ان کے گھر میں خدمت پر مامور تھے اور ان کے خاندان یہاں پلتے تھے ، ان کی بڑی بڑی بیٹھکیں تھیں ، قالنیوں سے سجی ہوتی تھیں ، ریشمی گاؤ تکے اور پردے تھے ، تب بجلی نہیں ہوتی تھی، گرمی میں کمروں میں لکڑی پر کپڑے کی جھالروں والے پنکھے لگے ہوتے تھے ، جن کی رسی ہاتو سے کھینچی جاتی تھی، یہ بڑے اثر و رسوخ والا گھرانا تھا، روپے پیسے کی بھی ریل پیل تھی،  دادی کے چچا جن کا نام غالباً الہ بخش تھا 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف بے جگری سے لڑتے تھے ، انگریزوں نے انہیں گرفتار کر کے پھانسی کی سزا سنا دی تھی،م یہ بڑے جواں ، جیالے ، اور خوبصورت تھے ، جب انہیں پھانسی کی سزا ہوئی تو جیسے دھرتی کانپ گئی ، لوگ دم بخود ہو گئے ، دادی سنایا کرتی تھی  کہ انہیں پھانسی پر چڑھایا جا رہا تھا تو دو دفعہ رسہ ٹوٹ گیا، پھر انگریزوں نے بطور خاص ریشم بٹوا کر رسہ تیار کروایا اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔۔۔۔۔پورا سیالکوٹ اور گرد و نواح کے علاقے اس کڑیل جوان کی موت پر نوحہ کناں تھے ، لیکن غیر ملکی حکمرانوں کے سامنے آواز بلند نہ سکتے تھے ، جنہوں نے آواز بلند کی وہ بھی دھر لئیے گئے ، یوں دادی کا خاندان اور دور تک مشہور ہو گیا۔۔۔۔اس خاندان کی ہمارے داد سے کوئی نسبت نہ تھی داد ابھی اپنی فیملی کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرانے میں لگے تھے ، گھر میں بھی ایک ہی خاندان تھا، جو کچی پکی اینٹوں  سے بنا ہوا تھا، چاروں بھائی یہاں ہی رہتے تھے ، بہنیں بیاہ کر اپنے اپنے گھروں کو جاچکی تھیں ، اس لئے گھر میں کوئی عورت نہیں تھی، اس لئے گر کا کوئی خاص طور طریقہ نہ تھا، سارے لڑکے تھے  اور گھر کے کام بھی خود ہی کیا کرتے تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ داد شادی کر کے بیوی گھر لے آئیں ، چچاؤں نے بھی اس بات پر زور دیا، داد محنت اور لگن سے کام کر کے پہلے اپنی مالی حالت سنوارنا چاہتے تھے ، لیکن ضرورت مجبوری کا دوسرا نام ہے ۔

اگلے وقتوں میں شادی کیلئے لڑکے کی شکل و صورت اور شرافت ہی دیکھیں جاتی تھی، تبھی تو ہماری دادی کا رشتہ ہمارے دادا سے ہو تھا، دونوں خاندانوں کی مالی حالتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا، دادی کے باپ اور بھائی سواریوں کیلئے گھوڑوں کا استعمال کرتے تھے ، مولوی پیراں دتہ جو حکیم تھے ان کی سفید گھوڑی تو پورے سیالکوٹ میں مشہور تھی، وہ اردگرد کے گاؤں اور قصبوں میں مریضوں کو دیکھنے اسی گھوڑی پر جایا کرتے تھے ، ان کا بڑا رعب و  دبدبا تھا۔

دادی اماں سنایا کرتی تھیں ، کہ یکسر مختلف ماحول میں آ کر انہیں زندگی سے نبھا کرنے میں خاصی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا گھر کے سارے کام خود کرنا پڑتے تھے ، ان دنوں دیور بھی ساتھ تھے ان کا کام بھی انہیں ہی کرنا پڑتا تھا، تو اور ان دنوں چکی پر گندم پیس کر روز تازہ آٹا بناتی تھیں ، دادی منہ اندھیرے اٹھتیں اور کام میں جت جاتی اور کام تو اتنے مشکل نہ تھے لیکن چکی پیسنا آسان کام نہ تھا۔۔۔۔۔ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے عمر بھر بھی چھوٹی تھی اکثر چکی پیستے رونے لگتیں ۔دادی بتایا کرتی تھیں ، اکثر جب وہ آتے تو میں آٹا پیس رہی ہوتی، وہ شاید بہن کے چہرے پر اذیت کے آثار پڑھ لیتے ، اس لئے بڑے پیار سے ان کی ہمت بندھاتے ، پیسے دے جاتے ، ہاں جاتے جاتے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھتری سے اپنی سفید کلف شدہ پگڑی کو چھو کر کہتے دیکھ فتح بی بی میری پگ سفید ہے ۔۔۔۔۔

دادی کہتی ہیں  میں سمجھ نہ پاتی کہ بھاجی یہ کیا کرتے اور کیا کہتے ہیں ، وہ کہتی ہیں آخر ایک دن جب میں میکے گئی تو میں نے اپنے ماں سے یہ بات کہی اور پوچھا ماں بھاجی اکثر یہ بات مجھے کیوں کہتے ہیں ؟

ماں جی مسکرا دیں ۔

دادی نے پھر پوچھا۔

تو۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول