صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
رات آنکھوں میں
اشتیاق زین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزل، خدا را بخش دو اب تو!
ترے وصال کی جب سے ہے سر خوشی روٹھی
قرار دل کو ملا، ناں ہی بے کلی روٹھی
عجیب مرگ کا عالم چمن پہ ہے طاری
صبا ہے چپ، تو گلوں سے ہے تازگی روٹھی
نگاہِ یار ہو، قسمت ہو، یا ضیائے طرب
بتائے کون، ہمیشہ ہی کیوں رہی روٹھی؟
یہ کس مقام پہ قسمت مجھے ہے لے آئی
کہ تیرگی ہے بہت، اس پہ روشنی روٹھی
رہِ حیات میں عبرت نشاں ہوں میں لوگو!
ہے موت مجھ سے گریزاں، تو زندگی روٹھی
میں غم کو دل کا سہارا بنا کے جی لوں گا
رہے خوشی سے مرے دل کی ہر خوشی روٹھی
خدا کرے نہ کبھی زینؔ، وہ ہو نم دیدہ
بھلے ہی میرے لبوں سے رہے ہنسی روٹھی
***
خدا را بخش دو اب تو!
خدا را بخش دو اب تو!
تمہاری مہربانی سے بہت کچھ سہہ لیا ہم نے
کہیں روٹی کے لالے ہیں
کہیں بجھتے اجالے ہیں
کہیں آنکھوں میں اشکِ خوں
کہیں تن من پہ چھالے ہیں!
جہاں چاہت کی تھی خوشبو، وہاں بارود کی بو ہے
جہاں بستی تھیں بس خوشیاں، وہاں ماتم کی آوازیں
سہانے خواب تھے جس جا، وہاں اب وحشتیں ناچیں
سرِ بازار اب ہائے، ہماری خواہشیں ناچیں
نئی ہر روز ہی ہم پر، ہزاروں آفتیں ناچیں
تمہارے عہدِ شاہی میں، ہزاروں پھول ایسے ہیں
کہ مجبوری جنہیں بس اِک نوالے ہی میں بیچ آئے
بہت معصوم کلیاں تھیں
جنہیں حالات کے دھارے سرِ بازار لے آئے
جو معمارِ وطن تھے کل ،انہیں ’’ خود کش ‘‘ بنا ڈالا،
سنبھل سکتے تھے جو شاید، انہیں پل میں گرا ڈالا
تھے بوڑھے ناتواں کاندھے
جنہیں کچھ اور بھی تم نے ہلا ڈالا، جھکا ڈالا
اور اس پر بھی تمہیں دعویٰ؟
مسیحا ہو، سہارے ہو؟ کہ محسن تم ہمارے ہو؟
خدا را بخش دو اب تو
خدا را بخش دو اب تو!
٭٭٭