صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
رستہ نئے اجالوں کا
سیما نقوی امروہوی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جل سے چرا کے قطرۂ نایاب لے گیا
یہ عشق پانیوں سے بھی مہتاب لے گیا
شاید کہ مجھ سے اس کی ضرورت رہی
آنکھوں سے چھین کر جو مرے خواب لے گیا
کھولا جو بادبان تو طوفان زندگی
ساحل سے کھینچ کر سوئے گرداب لے گیا
اف سادگیِ عشق کی غمزہ طرازیاں
دانتوں میں انگلیوں کو کوئی داب لے گیا
تنہائیاں، جنون، تمنا، غرور عشق
سب دے کے مجھ کو اک دل بیتاب لے گیا
جینے کی آس دل میں جگا کر وہ بے خبر
مجھ سے مری ہی زیست کے اسباب لے گیا
خون جگر سے سینچ کے خوشیوں کی کیاریاں
آنگن کو مرے درد کا سیلاب لے گیا
سیما سبھی دیا ہے ترقی کے کھیل نے
بس ہم سے جینے مرنے کے آداب لے گیا
٭٭٭
میری پلکوں پر سجی امید تھی سپنا نہ تھا
ہاں مگر اس میں کوئی تعبیر کا لمحہ نہ تھا
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا تھا جسکا نام
وہ مرا ہو کر بھی جانے کیوں مرے جیسا نہ تھا
کتنا چاہا پھر بھی جلتے تھے قدم اٹھتے نہ تھے
دو ہی قدموں کا سفر تھا آگ کا دریا نہ تھا
کیا ہوا اوقات اپنی اک کفن کی بھی نہیں
ابنِ آدم آج تک تو اس قدر مہنگا نہ تھا
خواہشوں کی قبر میں ہیں دفن سب ارماں مرے
بے کفن بے نام سی اس لاش کا چہرہ نہ تھا
ریت کے جیسا پھسلتا ہی گیا تھا ہاتھ سے
ریگ زار ِ عمر میں وہ وقت ہی میرا نہ تھا
کچھ تعلق بھی نہیں تھا قافلہ سالار سے
میری راہوں کی کوئی منزل کوئی رستہ نہ تھا
اپنی ہی یادوں سے ڈر لگتا تھا سیما اس لئے
سہل تھی دیوانگی یا ضبط کا یارا نہ تھا
یہ عشق پانیوں سے بھی مہتاب لے گیا
شاید کہ مجھ سے اس کی ضرورت رہی
آنکھوں سے چھین کر جو مرے خواب لے گیا
کھولا جو بادبان تو طوفان زندگی
ساحل سے کھینچ کر سوئے گرداب لے گیا
اف سادگیِ عشق کی غمزہ طرازیاں
دانتوں میں انگلیوں کو کوئی داب لے گیا
تنہائیاں، جنون، تمنا، غرور عشق
سب دے کے مجھ کو اک دل بیتاب لے گیا
جینے کی آس دل میں جگا کر وہ بے خبر
مجھ سے مری ہی زیست کے اسباب لے گیا
خون جگر سے سینچ کے خوشیوں کی کیاریاں
آنگن کو مرے درد کا سیلاب لے گیا
سیما سبھی دیا ہے ترقی کے کھیل نے
بس ہم سے جینے مرنے کے آداب لے گیا
٭٭٭
میری پلکوں پر سجی امید تھی سپنا نہ تھا
ہاں مگر اس میں کوئی تعبیر کا لمحہ نہ تھا
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا تھا جسکا نام
وہ مرا ہو کر بھی جانے کیوں مرے جیسا نہ تھا
کتنا چاہا پھر بھی جلتے تھے قدم اٹھتے نہ تھے
دو ہی قدموں کا سفر تھا آگ کا دریا نہ تھا
کیا ہوا اوقات اپنی اک کفن کی بھی نہیں
ابنِ آدم آج تک تو اس قدر مہنگا نہ تھا
خواہشوں کی قبر میں ہیں دفن سب ارماں مرے
بے کفن بے نام سی اس لاش کا چہرہ نہ تھا
ریت کے جیسا پھسلتا ہی گیا تھا ہاتھ سے
ریگ زار ِ عمر میں وہ وقت ہی میرا نہ تھا
کچھ تعلق بھی نہیں تھا قافلہ سالار سے
میری راہوں کی کوئی منزل کوئی رستہ نہ تھا
اپنی ہی یادوں سے ڈر لگتا تھا سیما اس لئے
سہل تھی دیوانگی یا ضبط کا یارا نہ تھا
٭٭٭