صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


رسول اکرم ۔ معجزے اور القاب

نا معلوم

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

قرآن اور پیغمبر اسلام

قرآن مجید پیغمبراسلامؐ کے سلسلے میں فرماتا ہے :
وکذلک جعلناکم امة وسطاً لتکونوا شهداء علی النّاس ویکون الرسول علیکم شهیداً ۲
اور اسی طرح ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمھارے اعمال کے گواہ رہیں۔
اس آیت کے دو معنی ہیں :ایک ظاہری معنی جسے تمام افراد سمجھ سکتے ہیں ،وہ یہ ہے کہ امت اسلامیہ کو دوسری امتوں کے لئے سرمشق قرار دیا گیا ہے تاکہ دوسری اقوام اس کی پیروی کریں اور پیغمبر اسلام ﷺ بھی امت اسلامیہ کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ لیکن اس کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں جسے ائمہ معصومین علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصاً علامہ طباطبائی نے اس آیت کریمہ کے ذیل میں مفصل بحث کی ہے اور ان روایات سے استفادہ کیا ہے۔ وہ معنی یہ ہے کہ امت اسلامیہ قیامت کے دن دوسری امتوں کے اعمال کی گواہ ہے اور چونکہ ساری امت والے اس عمل گواہی کی لیاقت نہیں رکھتے لہذا یہ امر ائمہ علیہم السلام سے مخصوص ہے ،سنی اور شیعہ دونوں کی روایات میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔
بہر حال آیت کا مفہوم یہ ہے کہ پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو خلق کیا تاکہ وہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کی شہادت دیں اور پیغمبر اکرمﷺ کو ان کے اعمال پر گواہ قرار دیا گیا۔ اور چونکہ گواہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی دنیا میں تمام امت کے اعمال سے باخبر ہو تاکہ قیامت کے دن شہادت دے سکے ،لہذا ضروری ہے کہ ائمہ علیہم السلام اس عالم وجود پر پوری طرح سے احاطہ اور اشراف رکھتے ہوں تاکہ امت کے اعمال سے مطلع رہیں ،یہی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ انسانوں کے دل میں چھپے ہوئے اسرار سے بھی واقف ہوں تاکہ قیامت کے دن اعمال کی کیفیت کی بھی گواہی دے سکیں۔ ان تمام اوصاف کے حامل افراد کو واسطہ فیض کہتے ہیں ،بہ الفاظ دیگر انہیں ولایت تکوینی حاصل ہوتی ہے۔
اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اس کائنات کے لئے واسطہ فیض ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے لئے واسطہ فیض ہیں۔ اس معنی کے پیش نظر ان روایات کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عقل کل ،نور مطلق یا اول ما خلق اللہ بتایا گیا ہے۔
یہ ایک طولانی بحث ہے اور اس مقالہ میں اس پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے (اس کی تفصیلی بحث کے لئے "الامامۃ والولایۃ فی القرآن "کی طرف مراجعہ فرمائیں )
قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ ساری آیات و روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اس دنیا میں واسطہ فیض ہیں ،چنانچہ اس دنیا میں جتنی بھی نعمتیں پائی جاتی ہیں ،چاہے وہ ظاہری ہوں جیسے عقل ،سلامتی ،امنیت ،روزی وغیرہ یا باطنی نعمتیں ہوں جیسے علم ،قدرت ، اسلام وغیرہ یہ سب انہیں کے وسیلے سے ہیں۔ یہ ذوات مقدسہ اس کائنات کے رموز خلقت سے واقف اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان مقدس ذوات کے لئے واسطہ فیض ہیں۔ اور ہر وہ ظاہری و باطنی نعمتیں جو انہیں ملتی ہیں وہ سب آنحضرت کے وسیلہ سے ملتی ہیں کیوں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان نعمتوں کے لئے علت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ہے اس آیت کا مفہوم جس میں ارشاد ہوتا ہے :"وکذلک جعلناکم امةً وسطاً لتکونوا شهداء علی النّاس ویکون الرسول علیکم شهیدا"ً اور یہ روایت جو ائمہ اطہار سے منقول ہے کہ "جو کچھ بھی ہم کہتے ہیں یا جو بھی ہمارے پاس ہے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے اور جو بھی آنحضرت نے فرمایا یا ان کے پاس موجود ہے وہ خداوند عالم کا عطیہ ہے "اسی معنی کو بیان کرتی ہے۔ 

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل                                                         ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول