صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں
رنگ کہتے ہیں
خالد احمد
ترتیب و تدوین: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
رنگ کہتے ہیں کہانی میری
کس کی خوشبو تھی جوانی میری
کوئی پائے تو مجھے کیا پائے
کھوئے رہنا ہے نشانی میری
کوہ سے دشت میں لے آئی ہے
دشمنِ جاں ہے روانی میری
کِھل رہی ہے پسِ دیوارِ زماں
خواہشِ نقل مکانی میری
سرِ مرقد ہیں سبھی سایہ کشا
کوئی حسرت نہیں فانی میری
تپشِ رنگ جھلس ڈالے گی
کیا کرے سوختہ جانی میری
نقش تھا میں بھی گِلی تختی کا
اُڑ گئی خاکِ معانی میری
کیا سخن فہم نظر تھی جس نے
بات کوئی بھی نہ مانی میری
ناقدوں نے مجھے پرکھا خالد
خاک صحراؤں نے چھانی میری
٭٭٭
وہ چرچا، جی کے جھنجھٹ کا ہوا ہے
کہ دل کا پاسباں کھٹکا ہوا ہے
وہ مصرع تھا کہ اک گل رنگ چہرہ
ابھی تک ذہن میں اٹکا ہوا ہے
ہم اُن آنکھوں کے زخمائے ہوئے ہیں
یہ ہاتھ، اس ہاتھ کا جھٹکا ہوا ہے
یقینی ہے اب اس دل کی تباہی
یہ قریہ، راہ سے بھٹکا ہوا ہے
گلہ اُس کا کریں کس دل سے خالد
یہ دل کب ایک چوکھٹ کا ہوا ہے
٭٭٭
٭٭٭