صفحہ اولکتاب کا نمونہ پڑھیں


رئیس الدین رئیس کا فن

مختلف ادباء


ڈاؤن لوڈ کریں 

   ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

علاّمہ ماجد الباقری(مرحوم)      گوجر ا نوالہ۔ پاکستان


    پیش لفظ  ”آسماں حیران ہے۔“ ۱۹۹۵ء

     رئیس الدین رئیس کہنہ مشق شاعر ہیں ان کی غزل فنی اور عصری تقاضوں سے آراستہ ہے جہاں ان کی غزل زندگی کی بھر پور ترجمانی کرتی ہے وہاں غمِ جاناں کے ساتھ غم دوراں کی چھاپ زیادہ گہری نظری آتی ہے۔ روایتی غزل کے شیش محل میں جدید حسّیت کی دھنک رنگ شمعیں جھلملاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ تخلیقی سطح پر یہ اعزاز کلاسیکی غزل کے بہت کم شعراء کو حاصل ہوا ہے میزائلوں اور بارود باری کے عہد میں سیاسی و سماجی تغیرات کا پرتو بھی ان کی غزلوں میں نمایاں ہے۔
    عصرِ حاضر کے مسائل طبقاتی کش مکش فرقہ وارانہ منافرت، مادہ پرستی، افلاس، غربت، بے روزگاری، بھوک ننگ ظلم وستم کی عکس ریزی کے ساتھ ساتھ بے انصافی اور معاشرتی ناہمواری کے خلاف پر عزم جدوجہد کا سراغ بھی ملتا ہے۔
    رئیس الدین رئیسؔ قنوطی شاعر نہیں بلکہ رجائی شاعرہیں یہ انداز مایوس انسانوں میں زندہ رہنے اور مصائب ومسائل سے نبرد آزما رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔
    رئیس الدین رئیسؔ اقدار اعلیٰ کی بازیافت کی جنگ لڑرہے ہیں، ہجرت، سفر، پڑاوٴ، بے گھری، زادہ ایسے استعارے ہیں جو عہد نو کے ہر فرد کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بے حفاظتی اور عدم استحکام کی اس فضا کو شکست دینے کے لیے ان کا تشخص ایک ایسے سفیر امن کا بنتا ہے جو مکہ سے مدینہ جانے والے قافلے کے ساتھ ہجرت کرنا چاہتا تھا لیکن شریک سفر نہ ہوسکا اور اب حق وباطل کی جنگ تنہا لڑرہا ہے۔ رئیسؔ کی غزلوں میں لہو کا استعارہ خاکِ کربلا سے اٹھتا ہوا روئے زمین پر چھاجاتا ہے۔
    رئیس الدین رئیسؔ تلاش ذات کے شاعر ہیں خود شناسی انہیں کائنات شناسی کی منزل تک پہنچادیتی ہے۔ اسے ایک طرف عمرانیات کے حوالے سے خارجی ہفت خواں عبور کرنا پڑتا ہے۔ اور دوسری طرف نفسیات کے حوالے سے داخلی ہفت خواں طے کرنا پڑتا ہے اسے طے کرتے ہوئے اس کو جن دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے غزل ان کی فنی ترسیل رموز وعلائم کو اظہار ذات کا ذریعہ بنالیتی ہے شاعر کی اس دوسری شخصیت میں کرب تنہائی اس کی روح کو ہر وقت جہنم سے ہمکنار رکھتا ہے کیوں کہ سارے تعلقات اور رفاقتیں جو اس اعصاب شکن سفر سے نبرد آزما ہونے میں میسر آتی ہے ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑ جاتی ہیں اور وہ اپنے لمحہٴ نجات کو نزول سے پہلے اس جانکاہ احساس سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اس بھری دنیا میں اکیلاپن مقدر ہے، رئیس نے ایک جگہ کہا ہے؎
ثبوت فتح رئیس اور کیا ملے تجھ کو
پناہ مانگ رہا ہے ترا عدو تجھ سے
    یہ بھی تلاش ذات کا وہ مرحلہ ہے جہاں کوئی ثبوت کوئی گواہی شاعر کو مطمئن نہیں کرتی شاعر اس وقت تک شواہد اور بیانات کی تشکیک کی نذر کرتارہتا ہے جب تک وہ اپنی ذات کو تسخیر نہیں کرلیتا۔
    غزل کی روایتی شان وشوکت برقرار رکھتے ہوئے ان کی سوچ جدید حسیت کے منطقی بہاوٴ میں تصوّف اور دینیات کی لہروں کو ساتھ ساتھ رکھتی ہیں اور اس طرح کلاسیکی لہجے میں جدت کا منفرد اسلوب آوازوں کے گھنے جنگل میں الگ شناخت رکھتا ہے۔

***

ڈاؤن لوڈ کریں 

 

ورڈ فائل                                                                          ٹیکسٹ فائل

پڑھنے میں مشکل؟؟؟

یہاں تشریف لائیں۔ اب صفحات کا طے شدہ فانٹ۔

   انسٹال کرنے کی امداد اور برقی کتابوں میں استعمال شدہ فانٹس کی معلومات یہاں ہے۔

صفحہ اول