صفحہ اول کتاب کا نمونہ پڑھیں
رفاقتوں کے درمیاں
اطیبؔ اعجاز
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ٹیکسٹ فائل
غزلیں
جانِ جاں آج یہ غضب ہو گا
خواب آنکھوں میں جاں بہ لب ہو گا
سینہ سینہ ادب ادب ہوگا
میرے مولا یہ کام کب ہو گا
بے زبانی ہی اب زباں ہو گی
مجھ سے شکوہ گلہ نہ اب ہو گا
غیر کے ذکر پر مچے گی دھوم
اور مرا نام زیرِ لب ہو گا
یوں سرِ راہ روٹھنا ان کا
میری رسوائی کا سبب ہو گا
سر نگوں ہو گی آرزو اطیبؔ
یہ کرشمہ بھی دیکھ اب ہوگا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پھول مہکے‘ چاندنی تھی ‘ کیا نہ تھا
تم نہ تھے تو ہر کوئی بیگانہ تھا
اپنی محرومی کا اندازہ نہ تھا
تم بچھڑ جاؤ گے یہ سوچا نہ تھا
دل کے آنگن میں دئیے جلتے نہ تھے
پاؤں جب تک آپ نے رکھا نہ تھا
لذتیں ‘ خوشبوئیں ‘ساری مستیاں
سانولی رنگت میں اس کی کیا نہ تھا
اور کس کو پیار کر تا میں بھلا
کوئی بھی تو آپ کے جیسا نہ تھا
میں تمہیں چاہوں گا اتنا ٹوٹ کر
تم نے بھی شاید کبھی سو چا نہ تھا
سب کے سب کھوئے ہوئے تھے بھیڑ میں
کوئی بھی میری وہاں سنتا نہ تھا
نیند آتی ہی نہ تھی بیمار کو
جب تک ان کو یاد کر لیتا نہ تھا
ورنہ کر دیتا اسے تم پر نثار
چاند آنگن میں مرے اُترا نہ تھا
مہر بانی اُن کی اطیبؔ دیکھئے
مجھ کو سب کچھ مل گیا مانگا نہ تھا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بوئے گل بن جاؤں گا بادِ صبا ہو جاؤں گا
یعنے تیری جستجو میں کیا سے کیا ہو جاؤں گا
اپنی ہستی کو مٹا کر نقشِ پا ہو جاؤں گا
تم قدم رکھوگے تومیں راستہ ہو جاؤں گا
زندگی کی اہمیت کیا ہے وفا کے سامنے
جانِ جاں میں آپ کی خاطر فناہو جاؤں گا
مانگنے بیٹھوں گا جب تم کو خدا سے دیکھنا
سر سے لے کر پاؤں تک دستِ دعاہو جاؤں گا
واسطہ کوئی نہ کوئی تو رہے گا اپنے بیچ
تو اگر پتھر ہے تو میں آئینہ ہو جاؤں گا
اس کی دوری نے مجھے اطیب ؔ سخن ور کر دیا
دیکھنا میں اس کا ہوکر کیا سے کیا ہو جاؤں گا
٭٭٭٭٭٭٭٭